Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَفَغَيۡرَ دِيۡنِ اللّٰهِ يَبۡغُوۡنَ وَلَهٗۤ اَسۡلَمَ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ طَوۡعًا وَّكَرۡهًا وَّاِلَيۡهِ يُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿83﴾
کیا وہ اللہ کے دین کے سوا اور دین کی تلاش میں ہیں؟ حالانکہ تمام آسمانوں والے اور سب زمین والے اللہ تعالٰی ہی کے فرمانبردار ہیں خوشی سے ہوں یا ناخوشی سے ، سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے ۔
افغير دين الله يبغون و له اسلم من في السموت و الارض طوعا و كرها و اليه يرجعون
So is it other than the religion of Allah they desire, while to Him have submitted [all] those within the heavens and earth, willingly or by compulsion, and to Him they will be returned?
Kiya woh Allah Taalaa kay deen kay siwa aur deen ki talash mein hain? Halankay tamam aasmanon walay aur sab zamin walay Allah Taalaa hi kay farmanbardar hain khushi say hon ya na khushi say sab ussi ki taraf lotaye jayen gay.
اب کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کی تلاش میں ہیں؟ حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جتنی مخلوقات ہیں ان سب نے اللہ ہی کے آگے گردن جھکا رکھی ہے ، ( کچھ نے ) خوشی سے اور ( کچھ نے ) ناچار ہوکر ، ( ٣٠ ) اور اسی کی طرف وہ سب لوٹ کر جائیں گے ۔
تو کیا اللہ کے دین کے سوا اور دین چاہتے ہیں ( ف۱٦۱ ) اور اسی کے حضور گردن رکھے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں ( ف۱٦۲ ) خوشی سے ( ف۱٦۳ ) سے مجبوری سے ( ف۱٦٤ )
اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ ( دین اللہ ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چاروناچار اللہ ہی کی تابع فرمان ( مسلم ) ۔ 71 ہیں اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟
کیا یہ اﷲ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں اور جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اس نے خوشی سے یا لاچاری سے ( بہرحال ) اسی کی فرمانبرداری اختیار کی ہے اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :71 یعنی تمام کائنات اور کائنات کی ہر چیز کا دین تو یہی اسلام ، یعنی اللہ کی اطاعت و بندگی ہے ، اب تم اس کائنات کے اندر رہتے ہوئے اسلام کو چھوڑ کر کونسا طریقہ زندگی تلاش کر رہے ہو؟
اسلامی اصول اور روز جزا اللہ تعالیٰ کے سچے دین کے سوا جو اس نے اپنی کتابوں میں اپنے رسولوں کی معرفت نازل فرمایا ہے یعنی صرف اللہ وحدہ لا شریک ہی کی عبادت کرنا کوئی شخص کسی اور دین کی تلاش کرے اور اسے مانے اس کی تردید یہاں بیان ہو رہی ہے پھر فرمایا کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی مطیع ہیں خواہ خوشی سے ہوں یا ناخوشی سے جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا وَّظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ) 13 ۔ الرعد:15 ) یعنی زمین و آسمان کی تمام تر مخلوق اللہ کے سامنے سجدے کرتی ہے اپنی خوشی سے یا جبراً اور جگہ ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ ) 16 ۔ النحل:48 ) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ تمام مخلوق کے سائے دائیں بائیں جھک جھک کر اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں اور اللہ ہی کے لئے سجدہ کرتی ہیں آسمانوں کی سب چیزیں اور زمینوں کے کل جاندار اور سب فرشتے کوئی بھی تکبر نہیں کرتا سب کے سب اپنے اوپر والے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور جو حکم دے جائیں بجا لاتے ہیں ، پس مومنوں کا تو ظاہر باطن قلب و جسم دونوں اللہ تعالیٰ کے مطیع اور اس کے فرمانبردار ہوتے ہیں اور کافر بھی اللہ کے قبضے میں ہے اور جبراً اللہ کی جانب جھکا ہوا ہے اس کے تمام فرمان اس پر جاری رہیں اور وہ ہر طرح قدرت و مشیت اللہ کے ماتحت ہے کوئی چیز بھی اس کے غلبے اور قدرت سے باہر نہیں ، اس آیت کی تفسیر میں ایک غریب حدیث یہ بھی وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آسمانوں والے تو فرشتے ہیں جو بخوشی اللہ کے فرمان گذار ہیں اور زمین والے وہ ہیں جو اسلام پر پیدا ہوئے ہیں یہ بھی بہ شوق تمام اللہ کے زیر فرمان ہیں ، اور ناخوشی سے فرماں بردار وہ ہیں جو لوگ مسلمان مجاہدین کے ہاتھوں میدان جنگ میں قید ہوتے ہیں اور طوق و زنجیر میں جکڑے ہوئے لائے جاتے ہیں یہ لوگ جنت کی طرف گھسیٹے جاتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے ، ایک صحیح حدیث میں ہے تیرے رب کو ان لوگوں سے تعجب ہوتا ہے جو زنجیروں اور رسیوں سے باندھ کر جنت کی طرف کھینچے جاتے ہیں ۔ اس حدیث کی اور سند بھی ہے ، لیکن اس آیت کے معنی تو وہی زیادہ قوی ہیں جو پہلے بیان ہوئے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ آیت اس آیت جیسی ہے آیت ( وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ) 31 ۔ لقمان:25 ) اگر تو ان سے پوچھ کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ تو یقینا وہ یہی جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد وہ وقت ہے جب روز ازل ان سب سے میثاق اور عہد لیا تھا اور آخر کار سب اسی کی طرف لوٹ جائیں گے یعنی قیامت والے دن اور ہر ایک کو وہ اس کے عمل کا بدلہ دے گا ۔ پھر فرماتا ہے تو کہہ ہم اللہ اور قرآن پر ایمان لائے اور ابراہیم اسماعیل اسحاق اور یعقوب علیہم السلام پر جو صحیفے اور وحی اتری ہم اس پر بھی ایمان لائے اور ان کی اولاد پر جو اترا اس پر بھی ہمارا ایمان ہے ، اسباط سے مراد بنو اسرائیل کے قبائل ہیں جو حضرت یعقوب کی نسل میں سے تھے یہ حضرت یعقوب کے بارہ بیٹوں کی اولاد تھے ، حضرت موسیٰ کو توراۃ دی گئی تھی اور حضرت عیسیٰ کو انجیل اور بھی جتنے انبیاء کرام اللہ کی طرف سے جو کچھ لائے ہمارا ان سب پر ایمان ہے ہم ان میں کوئی تفریق اور جدائی نہیں کرتے یعنی کسی کو مانیں کسی کو نہ مانیں بلکہ ہمارا سب پر ایمان ہے اور ہم اللہ کے فرمان بردار ہیں پس اس امت کے مومن تمام انبیاء اور کل اللہ تعالیٰ کی کتابوں کو مانتے ہیں کسی کے ساتھ کفر نہیں کرتے ، ہر کتاب اور ہر نبی کے سچا ماننے والے ہیں ۔ پھر فرمایا کہ دین اللہ کے سوا جو شخص کسی اور راہ چلے وہ قبول نہیں ہو گا اور آخرت میں وہ نقصان میں رہے گا جیسے صحیح حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن اعمال حاضر ہوں گے نماز آکر کہے گی کہ اے اللہ میں نماز ہوں اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اچھی چیز ہے صدقہ آئے گا اور کہے گا پروردگار میں صدقہ ہوں جواب ملے گا تو بھی خیر پر ہے ، روزہ آکر کہے گا میں روزہ ہوں اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو بھی بہتری پر ہے پھر اسی طرح اور اعمال بھی آتے جائیں گے اور سب کو یہی جواب ملتا رہے گا پھر اسلام حاضر ہو گا اور کہے گا اے اللہ تو سلام ہے اور میں اسلام ہوں اللہ فرمائے گا تو خیر پر ہے آج تیرے ہی اصولوں پر سب کو جانچوں گا ۔ پھر سزا یا انعام دوں گا اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے آیت ( وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ) 3 ۔ آل عمران:85 ) یہ حدیث صرف مسند احمد میں ہے اور اس کے راوی حسن کا حضرت ابو ہریرہ سے سننا ثابت نہیں ۔