Surah

Information

Surah # 36 | Verses: 83 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 41 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 45, from Madina
وَمَنۡ نُّعَمِّرۡهُ نُـنَكِّسۡهُ فِى الۡخَـلۡقِ‌ؕ اَفَلَا يَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿68﴾
اور جسے ہم بوڑھا کرتے ہیں اسے پیدائشی حالت کی طرف پھر الٹ دیتے ہیں کیا پھر بھی وہ نہیں سمجھتے ۔
و من نعمره ننكسه في الخلق افلا يعقلون
And he to whom We grant long life We reverse in creation; so will they not understand?
Aur jissay hum boorsha kertay hain ussay pedaeeshi halat ki taraf phir ulat detay hain kiya phir bhi woh nahi samajhtay.
اور ہم جس شخص کو لمببی عمر دیتے ہیں اسے تخلیقی اعتبار سے الٹ ہی دیتے ہیں ۔ ( ٢٠ ) کیا پھر بھی انہیں عقل نہیں آتی؟
اور جسے ہم بڑی عمر کا کریں اسے پیدائش میں الٹا پھیریں ( ف۸٦ ) تو کیا سمجھے نہیں ( ف۸۷ )
جس شخص کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو ہم الٹ ہی دیتے ہیں 57 ۔ کیا ( یہ حالات دیکھ کر ) انہیں عقل نہیں آتی؟
اور ہم جسے طویل عمر دیتے ہیں اسے قوت و طبیعت میں واپس ( بچپن یا کمزوری کی طرف ) پلٹا دیتے ہیں ، پھر کیا وہ عقل نہیں رکھتے
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :57 ساخت الٹ دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑھاپے میں آدمی کی حالت بچوں جیسی کر دیتا ہے ۔ اسی طرح وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوتا ہے ۔ اسی طرح دوسرے اسے اٹھاتے بٹھاتے اور سہارا دے کر چلاتے ہیں ۔ اسی طرح دوسرے اس کو کھلاتے پلاتے ہیں ۔ اسی طرح وہ اپنے کپڑوں میں اور اپنے بستر پر رفع حاجت کرنے لگتا ہے ۔ اسی طرح وہ ناسمجھی کی باتیں کرتا ہے جس پر لوگ ہنستے ہیں ۔ غرض جس کمزوری کی حالت سے اس نے دنیا میں اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا اختتام زندگی پر وہ اسی حالت کو پہنچ جاتا ہے ۔
شاعری پیغمبرانہ شان کے منافی ۔ انسان کی جوانی جوں جوں ڈھلتی ہے پیری ضعیفی کمزوری اور ناتوانی آتی جاتی ہے ، جیسے سورہ روم کی آیت میں ہے ۔ ( اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ 54؀ ) 30- الروم:54 ) اللہ وہ ہے جس نے تمہیں ناتوانی کی حالت میں پیدا کیا ۔ پھر ناتوانی کے بعد طاقت عطا فرمائی پھر طاقت و قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپا کردیا ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ خوب جاننے والا پوری قدرت رکھنے والا ہے ۔ اور آیت میں ہم تم میں سے بعض بہت بڑی عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تاکہ علم کے بعد وہ بےعلم ہوجائیں ۔ پس مطلب آیت سے یہ ہے کہ دنیا زوال اور انتقال کی جگہ ہے یہ پائیدار اور قرار گاہ نہیں ، پھر بھی کیا یہ لوگ عقل نہیں رکھتے کہ اپنے بچپن ، پھر جوانی ، پھر بڑھاپے پر غوکریں اور اس سے نتیجہ نکال لیں کہ اس دنیا کے بعد آخرت آنے والی ہے اور اس زندگی کے بعد میں دوبارہ پیدا ہونا ہے ۔ پھر فرمایا نہ تو میں نے اپنے پیغمبر کو شاعری سکھائی نہ شاعری اس کے شایان شان نہ اسے شعر گوئی سے محبت نہ شعر اشعار کی طرف اس کی طبیعت کا میلان ۔ اسی کا ثبوت آپ کی زندگی میں نمایاں طور پر ملتا ہے کہ کسی کاشعر پڑھتے تھے تو صحیح طور پر ادا نہیں ہوتا تھا یا پورا یاد نہیں نکلتا تھا ۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں اولاد عبدالمطلب کا ہر مرد عورت شعر کہنا جانتا تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کوسوں دور تھے ( ابن ابی حاتم ) دلائل بیہقی میں ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ عباس بن مرداس سلمی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم نے بھی تو یہ شعر کہا ہے ؟ تجعل نھبی و نھب العبید ، بین الاقرع و عینیتہ انہوں نے کہا حضور دراصل یوں ہے بین عینیتہ والا قرع آپ نے فرمایا چلو سب برابر ہے مطلب تو فوت نہیں ہوتا ؟ صلوات اللہ و سلامہ علیہ ۔ سہیلی نے روض الانف میں اس تقدیم تاخیر کی ایک عجیب توجیہ کی ہے وہ کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرع کو پہلے اور عینیہ کو بعد میں اس لیے ذکر کیا کہ عینیہ خلافت صدیقی میں مرتد ہوگیا تھا بخلاف اقرع کے کہ وہ ثابت قدم رہا تھا ۔ واللہ اعلم ۔ مغازی میں ہے کہ بدر کے مقتول کافروں کے درمیان گشت لگاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلا نفلق ھاما ( آگے کچھ نہ فرماسکے ۔ اس پر جناب ابو بکر نے پورا شعر پڑھ دیا ) ۔ من رجال اعزۃ علینا وھم کانوا اعق واظلما یہ کسی عرب شاعر کا شعر ہے جو حماسہ میں موجود ہے ۔ مسند احمد میں ہے کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طرفہ کا یہ شعر بہت پڑھتے تھے ویاتیک بالا خبار من لم تزود اس کا پہلا مصرعہ یہ ہے ستبدی لک الا یام ما کنت جاہلا یعنی زمانہ تجھ پر وہ امور ظاہر کردے گا جن سے تو بےخبر ہے اور تیرے پاس ایسا شخص خبریں لائے گا جسے تو نے توشہ نہیں دیا ، حضرت عائشہ سے سوال ہوا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم شعر پڑھتے تھے ، آپ نے جواب دیا کہ سب سے زیادہ بغض آپ کو شعروں سے تھا ہاں کبھی کبھی بنو قیس والے کا کوئی شعر پڑھتے لیکن اس میں بھی غلطی کرتے تقدیم تاخیر کردیا کرتے ۔ حضرت ابو بکر فرماتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یوں نہیں ہے تو آپ فرماتے نہ شاعر ہوں نہ شعر گوئی میرے شایان شان ( ابن ابی حاتم ) دوسری روایت میں شعر اور آگے پیچھے کا ذکر بھی ہے یعنی ویاتیک بالا خبار مالم تذود کو آپ نے من لم تزود الاخبار پڑھا تھا ، بہیقی کی ایک روایت میں ہے کہ پورا شعر کبھی آپ نے نہیں پڑھازیادہ سے زیادہ ایک مصرعہ پڑھ لیتے تھے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھودتے ہوئے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے اشعار پڑھے ۔ سو یاد رہے کہ آپ کا یہ پڑھنا صحابہ کے ساتھ تھا ۔ وہ اشعاریہ ہیں ۔ لاھم لو لاانت ما اھتدینا ولا تصدقناولا صلینا فانذلن سکینتہ علینا وثبت الاقدام ان لا قینا ان الاولی قد بغوا علینا اذا ارادوا فتنتہ ابینا حضور لفظ ابینا کو کھینچ کر پڑھتے اور سارے ہی بلند آواز سے پڑھتے ، ترجمہ ان اشعار کا یہ ہے کوئی غم نہیں اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے نہ صدقے دیتے اور نہ نمازیں پڑھتے ۔ اب تو ہم پر تسکین نازل فرما ۔ جب دشمنوں سے لڑائی چھڑ جائے تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما ، یہی لوگ ہم پر سرکشی کرتے ہیں ہاں جب کبھی فتنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم انکار کرتے ہیں اسی طرح ثابت ہے کہ حنین والے دن آپ نے اپنے خچر کو دشمنوں کی طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا ۔ انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب اس کی بابت یہ یاد رہے کہ اتفاقیہ ایک کلام آپ کی زبان سے نکل گیا جو وزن شعر پر اترا ۔ نہ کہ قصداً آپ نے شعر کہا ، حضرت جندب بن عبداللہ فرماتے ہیں ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں تھے آپ کی انگلی زخمی ہوگئی تھی تو آپ نے فرمایا ۔ ھل انت الا اصبح دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت یعنی تو ایک انگلی ہی تو ہے ۔ اور تو راہ اللہ میں خون آلود ہوئی ہے ۔ یہ بھی اتفاقیہ ہے قصداً نہیں ۔ اسی طرح ایک حدیث الا المم کی تفسیر میں آئے گی کہ آپ نے فرمایا ۔ ان تغفر اللھم تغفر جما وای عبدلک ما الما یعنی اے اللہ تو جب بخشے تو ہمارے سبھی کے سب گناہ بخش دے ، ورنہ یوں تو تیرا کوئی بندہ نہیں جو چھوٹی چھوٹی لغزشوں سے بھی پاک ہو پس یہ سب کے سب اس آیت کے منافی نہیں کیونکہ اللہ کی تعلیم آپ کو شعر گوئی کی نہ تھی ۔ بلکہ رب العالمین نے تو آپ کو قرآن عظیم کی تعلیم دی تھی جس کے پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا ۔ قرآن حکیم کی یہ پاک نظم شاعری سے منزلوں دور تھی ۔ اسی طرح کہانت سے اور گھڑ لینے سے اور جادو کے کلمات سے جیسے کہ کفار کے مختلف گروہ مختلف بولیاں بولتے تھے ۔ آپ کی تو طبیعت ان لسانی صنعتوں سے معصوم تھی ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ابو داؤد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نزدیک یہ تینوں باتیں برابر ہیں ، تریاق کا پینا ، گنڈے کا لٹکانا اور شعر بنانا ۔ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں شعر گوئی سے آپ کو طبعاً نفرت تھی ۔ دعا میں آپ کو جامع کلمات پسند آتے تھے اور اس کے سوا چھوڑ دیتے تھے ( احمد ) ابو اداؤد میں ہے کسی کا پیٹ پیپ سے بھر جانا اس کے لیے شعروں سے بھر لینے سے بہتر ہے ۔ ( ابوداؤد ) مسند احمد کی ایک غریب حدیث میں ہے جس نے عشاء کی نماز کے بعد کسی شعر کا ایک مصرع بھی باندھا اس کی اس رات کی نماز نامقبول ہے ۔ یہ یادر ہے کہ شعر گوئی کی قسمیں ہیں ، مشرکوں کی ہجو میں شعر کہنے مشروع ہیں ۔ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ وغیرہ جیسے اکابرین صحابہ نے کفار کی ہجو میں اشعار کے کلام میں ایسے اشعار پائے جاتے ہیں ۔ چنانچہ امیہ بن صلت کے اشعار کی بابت فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اس کے شعر تو ایمان لاچکے ہیں لیکن اس کا دل کافر ہی رہا ۔ ایک صحابی نے آپ کو امیہ کے ایک سو بیت سنائے ہر بیت کے بعد آپ فرماتے تھے اور کہو ۔ ابو داؤد میں حضور کا ارشاد ہے کہ بعض بیان مثل جادو کے ہیں اور بعض شعر سراسر حکمت والے ہیں ۔ پس فرمان ہے کہ جو کچھ ہم نے انہیں سکھایا ہے وہ سراسر ذکر و نصیحت اور واضح صاف اور روشن قرآن ہے ، جو شخص ذرا سا بھی غور کرے اس پر یہ کھل جاتا ہے ۔ تاکہ روئے زمین پر جتنے لوگ موجود ہیں یہ ان سب کو آگاہ کردے اور ڈرا دے جیسے فرمایا ( لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ 19؀ۘ ) 6- الانعام:19 ) تاکہ میں تمہیں اس کے ساتھ ڈرادوں اور جسے بھی یہ پہنچ جائے ۔ اور آیت میں ہے ( وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ 17؀ ) 11-ھود:17 ) یعنی جماعتوں میں سے جو بھی اسے نہ مانے وہ سزاوار دوزخی ہے ۔ ہاں اس قرآن سے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے اثر وہی لیتا ہے ۔ جو زندہ دل اور اندرونی نور والا ہو ۔ عقل و بصیرت رکھتا ہو اور عذاب کا قول تو کافروں پر ثابت ہے ہی ۔ پس قرآن مومنوں کے لیے رحمت اور کافروں پر اتمام حجت ہے ۔