Surah

Information

Surah # 37 | Verses: 182 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 56 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
فَاسۡتَفۡتِهِمۡ اَهُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمۡ مَّنۡ خَلَقۡنَاؕ اِنَّا خَلَقۡنٰهُمۡ مِّنۡ طِيۡنٍ لَّازِبٍ‏ ﴿11﴾
ان کافروں سے پوچھو تو کہ آیا ان کا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا ( ان کا ) جنہیں ہم نے ( ان کے علاوہ ) پیدا کیا ؟ ہم نے ( انسانوں ) کو لیسدار مٹی سے پیدا کیا ہے؟ ۔
فاستفتهم اهم اشد خلقا ام من خلقنا انا خلقنهم من طين لازب
Then inquire of them, [O Muhammad], "Are they a stronger [or more difficult] creation or those [others] We have created?" Indeed, We created men from sticky clay.
Inn kafiron say poocho to kay aaya inn ka peda kerna ziyadah dushwaar hai ya ( unn ka ) jinhen hum ney ( inn kay ilawa ) peda kiya? Hum ney ( insano ) ko less daar mitti say peda kiya hai.
اب ذرا ان ( کافروں ) سے پوچھو کہ ان کی تخلیق زیادہ مشکل ہے یا ہماری پیدا کی ہوئی دوسری مخلوقات کی ؟ ( ٦ ) ان کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے ۔
تو ان سے پوچھو ( ف۱۲ ) کیا ان کی پیدائش زیادہ مضبوط ہے یا ہماری اور مخلوق آسمانوں اور فرشتوں وغیرہ کی ( ف۱۳ ) بیشک ہم نے ان کو چپکتی مٹی سے بنایا ( ف۱٤ )
اب ان سے پوچھو ، ان کی پیدائش زیادہ مشکل ہے یا ان چیزوں کی جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں ؟8 ۔ ان کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے 9 ۔
اِن سے پوچھئے کہ کیا یہ لوگ تخلیق کئے جانے میں زیادہ سخت ( اور مشکل ) ہیں یا وہ چیزیں جنہیں ہم نے ( آسمانی کائنات میں ) تخلیق فرمایا ہے ، بیشک ہم نے اِن لوگوں کو چپکنے والے گارے سے پیدا کیا ہے
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :8 یہ کفار مکہ کے اس شبہ کا جواب ہے جو وہ آخرت کے بارے میں پیش کرتے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ آخرت ممکن نہیں ہے ، کیونکہ مرے ہوئے انسانوں کا دوبارہ پیدا ہونا محال ہے ۔ اس کے جواب میں امکان آخرت کے دلائل پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ان کے سامنے یہ سوال رکھتا ہے کہ اگر تمہارے نزدیک مرے ہوئے انسانوں کو دو بارہ پیدا کرنا بڑا سخت کام ہے جس کی قدرت تمہارے خیال میں ہم کو حاصل نہیں ہے تو بتاؤ کہ یہ زمین و آسمان ، اور یہ بے شمار اشیاء جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ، ان کا پیدا کرنا کوئی آسان کام ہے ؟ آخر تمہاری عقل کہاں ماری گئی ہے کہ خدا کے لیے یہ عظیم کائنات پیدا کرنا مشکل نہ تھا ، اور جو خود تم کو ایک دفعہ پیدا کر چکا ہے ، اس کے متعلق تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہاری دوبارہ تخلیق سے وہ عاجز ہے ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :9 یعنی یہ انسان کوئی بڑی چیز تو نہیں ہے ۔ مٹی سے بنایا گیا ہے اور پھر اسی مٹی سے بنایا جا سکتا ہے ۔ لیس دار گارے سے انسان کی پیدائش کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان اول کی پیدائش مٹی سے ہوئی تھی اور پھر آگے نسل انسانی اسی پہلے انسان کے نطفے سے وجود میں آئی ۔ اور یہ بھی ہے کہ ہر انسان لیس دار گارے سے بنا ہے ۔ اس لیے کہ انسان کا سارا مادہ وجود زمین ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔ جس نطفے سے وہ پیدا ہوا ہے وہ غذا ہی سے بنتا ہے ، اور استقرار حمل کے وقت سے مرتے دم تک اس کی پوری ہستی جن اجزاء سے مرکب ہوتی ہے وہ سب بھی غذا ہی سے فراہم ہوتے ہیں ۔ یہ غذا خواہ حیوانی ہو یا نباتی ، آخر کار اس کا ماخذ وہ مٹی ہے جو پانی کے ساتھ مل کر اس قابل ہوتی ہے کہ انسان کی خوراک کے لیے غلے اور ترکاریاں اور پھل نکالے ، اور ان حیوانات کو پرورش کرے جن کا دودھ اور گوشت انسان کھاتا ہے ۔ پس بنائے استدلال یہ ہے کہ یہ مٹی اگر حیات قبول کرنے کے لائق نہ تھی تو تم آج کیسے زندہ موجود ہو؟ اگر اس میں زندگی پیدا کیے جانے کا آج امکان ہے ، جیسا کہ تمہارا موجود ہونا خود اس کے امکان کو صریح طور پر ثابت کر رہا ہے ، تو کل دوبارہ اسی مٹی سے تمہاری پیدائش کیوں ممکن نہ ہو گی ؟
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ان منکرین قیامت سے پوچھو کہ تمہارا پیدا کرنا ہم پر مشکل ہے ؟ یا آسمان و زمین فرشتے جن وغیرہ کا ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت ام من عددنا ہے مطلب یہ ہے کہ اس کا اقرار تو انہیں بھی ہے کہ پھر مر کر جینے کا انکار کیوں کر رہے ہیں؟ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ انسانوں کی پیدائش سے تو بہت بڑی اور بہت بھاری پیدائش آسمان و زمین کی ہے لیکن اکثر لوگ بےعلمی برتتے ہیں ۔ پھر انسان کی پیدائشی کمزوری بیان فرماتا ہے کہ یہ چکنی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جس میں لیس تھا جو ہاتھوں پر چپکتی تھی ۔ تو چونکہ حقیقت کو پہنچ گیا ہے ان کے انکار پر تعجب کر رہا ہے کیونکہ اللہ کی قدرتیں تیرے سامنے ہیں اور اس کے فرمان بھی ۔ لیکن یہ تو اسے سن کر ہنسی اڑاتے ہیں ۔ اور جب کبھی کوئی واضح دلیل سامنے آجاتی ہے تو مسخرا پن کرنے لگتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے ۔ ہم کسی طرح اسے نہیں ماننے کے کہ مر کر مٹی ہو کر پھر جی اٹھیں بلکہ ہمارے باپ دادا بھی دوسری زندگی میں آجائیں ہم تو اس کے قائل نہیں ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہدو کہ ہاں تم یقینا دوبارہ پیدا کئے جاؤ گے ۔ تم ہو کیا چیز اللہ کی قدرت اور مشیت کے ماتحت ہو ، اس کی وہ ذات ہے کہ کسی کی اس کے سامنے کوئی ہستی نہیں ۔ فرماتا ہے ( کل اتوہ داخرین ) ہر شخص اس کے سامنے عاجزی اور لاچاری سے حاضر ہونے والا ہے ۔ ایک آیت میں ہے ( وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ 60؀ۧ ) 40-غافر:60 ) میری عبادت سے سرکشی کرنے والے ذلیل و خوار ہو کر جنہم میں جائیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جسے تم مشکل سمجھتے ہو ، وہ مجھ پر تو بالکل ہی آسان ہے صرف ایک آواز لگتے ہی ہر ایک زمین سے نکل کر دہشت ناکی کے ساتھ اہوال و احوال قیامت کو دیکھنے لگے گا ۔ واللہ اعلم