Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ  وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ‏ ﴿92﴾
جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے ، اور تم جو خرچ کرو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔
لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون و ما تنفقوا من شيء فان الله به عليم
Never will you attain the good [reward] until you spend [in the way of Allah ] from that which you love. And whatever you spend - indeed, Allah is Knowing of it.
Jab tak tum apni pasandeedah cheez say Allah Taalaa ki raah mein kharach na kero gay hergiz bhalaee na pao gay aur tum jo kharach kero ussay Allah Taalaa bakhoobi janta hai.
تم نیکی کے مقام تک اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچو گے جب تک ان چیزوں میں سے ( اللہ کے لیے ) خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں ۔ ( ٣٢ ) اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو ، اللہ اسے خوب جانتا ہے ۔
تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو ( ف۱۷۲ ) اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے ،
تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں ( خدا کی راہ میں ) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو 75 اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا ۔
تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم ( اللہ کی راہ میں ) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو ، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :75 اس سے مقصود ان کی اس غلط فہمی کو دور کرنا ہے جو وہ ”نیکی“ کے بارے میں رکھتے تھے ۔ ان کے دماغوں میں نیکی کا بلند سے بلند تصور بس یہ تھا کہ صدیوں کے توارث سے ”تشرُّع“ کی جو ایک خاص ظاہری شکل ان کے ہاں بن گئی تھی اس کا پورا چربہ آدمی اپنی زندگی میں اتار لے اور ان کے علماء کی قانونی موشگافیوں سے جو ایک لمبا چوڑا فقہی نظام بن گیا تھا اس کے مطابق رات دن زندگی کے چھوٹے چھوٹےضمنی و فروعی معاملات کی ناپ تول کرتا رہے ۔ اس تشرُّع کی اوپری سطح سے نیچے بالعموم یہودیوں کے بڑے بڑے ”دیندار“ لوگ تنگ دلی ، حرض ، بخل ، حق پوشی اور حق فروشی کے عیوب چھپائے ہوئے تھے اور رائے عام ان کو نیک سمجھتی تھی ۔ اسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے انہیں بتایا جا رہا ہے کہ ”نیک انسان“ ہونے کا مقام ان چیزوں سے بالاتر ہے جن کو تم نے مدار خیر و صلاح سمجھ رکھا ہے ۔ نیکی کی اصل روح خدا کی محبت ہے ، ایسی محبت کہ رضائے الٰہی کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ ہو ۔ جس چیز کی محبت بھی آدمی کے دل پر اتنی غالب آجائے کہ وہ اسے خدا کی محبت پر قربان نہ کر سکتا ہو ، بس وہی بت ہے اور جب تک اس بت کو آدمی توڑ نہ دے ، نیکی کے دروازے اس پر بند ہیں ۔ اس روح سے خالی ہونے کے بعد ظاہری تشرُّع کی حیثیت محض اس چمکدار روغن کی سی ہے جو گھن کھائی ہوئی لکڑی پر پھیر دیا گیا ہو ۔ انسان ایسے روغنوں سے دھوکا کھا سکتے ہیں ، مگر خدا نہیں کھا سکتا ۔
سب سے زیادہ پیاری چیز اور صدقہ حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں بر سے مراد جنت ہے ، یعنی اگر تم اپنی پسند کی چیزیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتے رہو گے تو تمہیں جنت ملے گی ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ مالدار صحابی تھے مسجد کے سامنے ہی بیئرحا نامی آپ کا ایک باغ تھا جس میں کبھی کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے جایا کرتے تھے اور یہاں کا خوش ذائقہ پانی پیا کرتے تھے جب یہ آیت اتری تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ میرا تو سب سے زیادہ پیارا مال یہی باغ ہے میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کیا اللہ تعالیٰ مجھے بھلائی عطا فرمائے اور اپنے پاس اسے میرے لئے ذخیرہ کرے آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں اسے تقسیم کر دیں آپ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے مسلمانوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچے گا تم اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو چنانچہ حضرت ابو طلحہ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں بانٹ دیا ، بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خدمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے تمام مال میں سب سے زیاد مرغوب مال خیبر کی زمین کا حصہ ہے میں اسے راہ اللہ دینا چاہتا ہوں فرمائیے کیا کروں؟ آپ نے فرمایا اسے وقف کر دو اصل روک لو اور پھل وغیرہ راہ اللہ کر دو ۔ مسند بزاز میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے اس آیت کی تلاوت کر کے سوچا تو مجھے کوئی چیز ایک کنیز سے زیادہ پیاری نہ تھی ۔ میں نے اس لونڈی کو راہ للہ آزاد کر دیا ، اب تک بھی میرے دل میں اس کی ایسی محبت ہے کہ اگر کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کے نام پر دے کر پھر لوٹا لینا جائز ہو تو میں کم از کم اس سے نکاح کر لیتا ۔