Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسۡرَآءِيۡلُ عَلٰى نَفۡسِهٖ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تُنَزَّلَ التَّوۡرٰٮةُ ‌ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِالتَّوۡرٰٮةِ فَاتۡلُوۡهَاۤ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿93﴾
توراۃ کے نزول سے پہلے ( حضرت ) یعقوب ( علیہ السلام ) نے جس چیز کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا اس کے سِوا تمام کھانے بنی اسرائیل پر حلال تھے آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم سچّے ہو تو توراۃلے آؤ اور پڑھ کر سُناؤ ۔
كل الطعام كان حلا لبني اسراءيل الا ما حرم اسراءيل على نفسه من قبل ان تنزل التورىة قل فاتوا بالتورىة فاتلوها ان كنتم صدقين
All food was lawful to the Children of Israel except what Israel had made unlawful to himself before the Torah was revealed. Say, [O Muhammad], "So bring the Torah and recite it, if you should be truthful."
Toraat kay nuzool say pehlay ( hazrat ) yaqoob ( alh-e-salam ) ney jiss cheez ko apney upper haram ker liya tha uss kay siwa tamam khaney bani israeel per halal thay aap keh dijiye kay agar tum sachay ho to toraat ley aao aur parh sunao.
تورات کے نازل ہونے سے پہلے کھانے کی تمام چیزیں ( جو مسلمانوں کے لیے حلال ہیں ) بنی اسرائیل کے لیے ( بھی ) حلال تھیں ، سوائے اس چیز کے جو اسرائیل ( یعنی یعقوب علیہ السلام ) نے اپنے اوپر حرام کرلی تھی ۔ ( اے پیغمبر ! یہودیوں سے ) کہہ دو کہ : اگر تم سچے ہو تو تورات لے کر آؤ اور اس کی تلاوت کرو ۔ ( ٣٣ )
سب کھانے بنی اسرائیل کو حلال تھے مگر وہ جو یعقوب نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا توریت اترنے سے پہلے تم فرماؤ توریت لاکر پڑھو اگر سچے ہو ( ف۱۷۳ )
کھانے کی یہ ساری چیزیں ( جو شریعت محمدی میں حلال ہیں ) بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں ، 76 البتہ بعض چیزیں ایسی تھیں جنہیں تورات کے نازل کیے جانے سے پہلے اسرائیل 77 نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا تھا ۔ ان سے کہو ، اگر تم ( اپنے اعتراض میں ) سچے ہو تو لاؤ تورات اور پیش کرو اس کی کوئی عبارت ۔
تورات کے اترنے سے پہلے بنی اسرائیل کے لئے ہر کھانے کی چیز حلال تھی سوائے ان ( چیزوں ) کے جو یعقوب ( علیہ السلام ) نے خود اپنے اوپر حرام کر لی تھیں ، فرما دیں: تورات لاؤ اور اسے پڑھو اگر تم سچے ہو
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :76 قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر جب علماء یہود کوئی اصولی اعتراض نہ کر سکے ( کیونکہ اساس دین جن امور پر ہے ان میں انبیاء سابقین کی تعلیمات اور نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں یک سر مو فرق نہ تھا ) تو انہوں نے فقہی اعتراضات شروع کیے ۔ اس سلسلہ میں ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ آپ نے کھانے پینے کی بعض ایسی چیزوں کو حلال قرار دیا ہے جو پچھلے انبیاء کے زمانہ سے حرام چلی آرہی ہیں ۔ اسی اعتراض کا یہاں جواب دیا جا رہا ہے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :77 ”اسرائیل“ سے مراد اگر بنی اسرائیل لیے جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ نزول توراة سے قبل بعض چیزیں بنی اسرائیل نے محض رسماً حرام قرار دے لی تھیں ۔ اور اگر اس سے مراد حضرت یعقوب علیہ السلام لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آنجناب نے بعض چیزوں سے طبعی کراہت کی بنا پر یا کسی مرض کی بنا پر احتراز فرمایا تھا اور ان کی اولاد نے بعد میں انہیں ممنوع سمجھ لیا ۔ یہی موخر الذکر روایت زیادہ مشہور ہے ۔ اور بعد والی آیت سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ اونٹ اور خرگوش وغیرہ کی حرمت کا جو حکم بائیبل میں لکھا ہے وہ اصل توراة کا حکم نہیں ہے بلکہ یہودی علماء نے بعد میں اسے داخل کتاب کر دیا ہے ۔ ( مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام حاشیہ نمبر ١۲۲ ) ۔
بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہودی وفد مسند احمد میں ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ ہم آپ سے چند سوال کرنا چاہتے ہیں جن کے جواب نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں آپ نے فرمایا پوچھو لیکن پہلے تم لوگ وعدہ کرو اگر میں صحیح صحیح جواب دے دوں تو تمہیں میری نبوت کے تسلیم کر لینے میں کوئی عذر نہ ہو گا انہوں نے اس شرط کو منظور کر لیا کہ اگر آپ نے سچے جواب دے تو ہم اسلام قبول کرلیں گے ساتھ ہی انہوں نے بڑی بڑی قسمیں بھی کھائیں پھر پوچھا کہ بتائیے ۔ حضرت اسرائیل نے کیا چیز اپنے اوپر حرام کی تھی؟ عورت مرد کے پانی کی کیا کیفیت ہے؟ اور کیوں کبھی لڑکا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی؟ اور نبی امی کی نیند کیسی ہے؟ اور فرشتوں میں سے کونسا فرشتہ اس کے پاس وحی لے کر آتا ہے؟ آپ نے فرمایا جب حضرت اسرائیل سخت بیمار ہوئے تو نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے شفا دے گا تو میں سب سے زیادہ پیاری چیز کھانے پینے کی چھوڑ دوں گا جب شفا یاب ہو گئے تو اونٹ کا گوشت اور دودھ چھوڑ دیا ، مرد کا پانی سفید رنگ اور گاڑھا ہوتا ہے اور عورت کا پانی زردی مائل پتلا ہوتا ہے دونوں سے جو اوپر آجائے اس پر اولاد نر مادہ ہوتی ہے ، اور شکل و شباہت میں بھی اسی پر جاتی ہے ۔ اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند میں اس کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے ۔ میرے پاس وحی لے کر وہی فرشتہ آتا ہے جو تمام انبیاء کے پاس بھی آتا رہا یعنی جبرائیل علیہ السلام ، بس اس پر وہ چیخ اٹھے اور کہنے لگے کوئی اور فرشتہ آپ کا ولی ہوتا تو ہمیں آپ کی نبوت تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہ رہتا ۔ ہر سوال کے جواب کے وقت آپ انہیں قسم دیتے اور ان سے دریافت فرماتے اور وہ اقرار کرتے کہ ہاں جواب صحیح ہے انہیں کے بارے میں آیت ( قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:97 ) نازل ہوئی اور روایت میں ہے کہ حضرت اسرائیل کو عرق النساء کی بیماری تھی اور اس میں ان کا ایک پانچواں سوال یہ بھی ہے کہ یہ رعد کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ عزوجل کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ جو بادلوں پر مقرر ہے اس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہے جس سے بادلوں کا جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہو لے جاتا ہے اور یہ گرج کی آواز اسی کی آواز ہے ۔ جبرائیل کا نام سن کر یہ کہنے لگے وہ تو عذاب اور جنگ وجدال کا فرشتہ ہے اور ہمارا دشمن ہے ، اگر پیداوار اور بارش کے فرشتے حضرت میکائیل آپ کے رفیق ہوتے تو ہم مان لیتے ۔ حضرت یعقوب کی روش پر ان کی اولاد بھی رہی اور وہ بھی اونٹ کے گوشت سے پرہیز کرتی رہی ، اس آیت کو اگلی آیت سے مناسبت ایک تو یہ ہے کہ جس طرح حضرت اسرائیل نے اپنی چہیتی چیز اللہ کی نذر کر دی اسی طرح تم بھی کیا کرو ۔ لیکن یعقوب کی شریعت میں اس کا طریقہ یہ تھا کہ اپنی پسندیدہ اور مرغوب چیز کا نام اللہ پر ترک کر دیتے تھے اور ہماری شریعت میں یہ طریقہ نہیں بلکہ ہمیں یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم اپنی چاہت کی چیزیں اللہ کے نام پر خرچ کر دیا کریں ، جیسے فرمایا آیت ( وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ) 2 ۔ البقرۃ:177 ) اور فرمایا آیت ( وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا ) 76 ۔ الدہر:8 ) باوجود محبت اور چاہت کے وہ ہماری راہ میں مال خرچ کرتے اور مسکینوں کو کھانا دیتے ہیں ، دوسری مناسبت یہ بھی ہے کہ پہلی آیتوں میں نصرانیوں کی تردید تھی تو یہاں یہودیوں کا رد ہو رہا ہے ان کے رد میں حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا صحیح واقعہ بتا کر ان کے عقیدے کا رد کیا تھا ، یہاں نسک کا صاف بیان کر کے ان کی اولاد بھی اسے حرام جانتی رہی چنانچہ توراۃ میں بھی اس کی حرمت نازل ہوئی ، اسی طرح اور بھی بعض چیزیں حرام کی گئیں یہ نسخ نہیں تو اور کیا ہے؟ حضرت آدم علیہ السلام کی صلبی اولاد کا آپس میں بہن بھائی کا نکاح ابتداء جائز ہوتا تھا لیکن بعد میں حرام کر دیا ، عورتوں پر لونڈیوں سے نکاح کرنا شریعت ابراہیمی میں مباح تھا خود حضرت ابراہیم حضرت سارہ پر حضرت ہاجرہ کو لائے ، لیکن پھر توراۃ میں اس سے روکا گیا ، دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا حضرت یعقوب کے زمانہ میں جائز تھا بلکہ خود حضرت یعقوب کے گھر میں بیک وقت دو سگی بہنیں تھیں لیکن پھر توراۃ میں یہ حرام ہو گیا اسی کو نسخ کہتے ہیں اسے وہ دیکھ رہے ہیں اپنی کتاب میں پڑھ رہے ہیں لیکن پھر نسخ کا انکار کر کے انجیل کو اور حضرت عیسیٰ کو نہیں مانتے اور ان کے بعد ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتے ہیں ، تو یہاں فرمایا کہ توراۃ کے نازل ہونے سے پہلے تمام کھانے حلال تھے سوائے اس کے جسے اسرائیل علیہ السلام نے اپنی جان پر حرام کر لیا تھا تم توراۃ لاؤ اور پڑھو اس میں موجود ہے ، پھر اس کے باوجود تمہاری یہ بہتان بازی اور افتراء پردازی کہ اللہ نے ہمارے لئے ہفتہ ہی کے دن کو ہمیشہ کے لئے عید کا دن مقرر کیا ہے اور ہم سے عہد لیا ہے کہ ہم ہمیشہ توراۃ ہی کے عامل رہیں اور کسی اور نبی کو نہ مانیں یہ کس قدر ظلم و ستم ہے ، تمہاری یہ باتیں اور تمہاری یہ روش یقینا تمہیں ظالم و جابر ٹھہراتی ہے ۔ اللہ نے سچی خبر دے دی ابراہیمی دین وہی ہے جسے قرآن بیان کر رہا ہے تم اس کتاب اور اس نبی کی پیروی کرو ان سے اعلیٰ کوئی نبی ہے نہ اس سے بہتر اور زیادہ واضح کوئی اور شریعت ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ) 6 ۔ الانعام:161 ) اے نبی تم کہدو کہ مجھے میرے رب نے موحد ابراہیم حنیف کے مضبوط دین کی سیدھی راہ دکھا دی ہے ۔ اور جگہ ہے ہم نے تیری طرف وحی کی کہ موحد ابراہیم حنیف کے دین کی تابعداری کر ۔