Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنَّ اَوَّلَ بَيۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَـلَّذِىۡ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّهُدًى لِّلۡعٰلَمِيۡنَ‌‌ۚ‏ ﴿96﴾
اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مُقّرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ ( شریف ) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت اور ہدایت والا ہے ۔
ان اول بيت وضع للناس للذي ببكة مبركا و هدى للعلمين
Indeed, the first House [of worship] established for mankind was that at Makkah - blessed and a guidance for the worlds.
Allah Taalaa ka pehla ghar jo logon kay liye muqarrar kiya gaya woh hai jo makkah ( sharif ) mein hai jo tamam duniya kay liye barkat-o-hidayat wala hai.
حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں ( کی عبادت ) کے لیے بنایا گیا یقینی طور پر وہ ہے جو مکہ میں واقع ہے ( اور ) بنانے کے وقت ہی سے برکتوں والا اور دنیا جہان کے لوگوں کے لیے ہدایت کا سامان ہے ۔ ( ٣٤ )
بیشک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان کا راہنما ( ف۱۷٦ )
بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے ۔ اس کو خیروبرکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا ۔ 79
بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں ( کی عبادت ) کے لئے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے ، برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ( مرکزِ ) ہدایت ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :79 یہودیوں کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ تم نے بیت المقدس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ کیوں بنایا ، حالانکہ پچھلے انبیا کا قبلہ بیت المقدس ہی تھا ۔ اس کا جواب سورہ بقرہ میں دیا جا چکا ہے ۔ لیکن یہودی اس کے بعد بھی اپنے اعتراض پر مصر رہے ۔ لہٰذا یہاں پھر اس کا جواب دیا گیا ہے ۔ بیت المقدس کے متعلق خود بائیبل ہی کی شہادت موجود ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساڑھے چار سو برس بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو تعمیر کیا ( ١ ۔ سلاطین ، باب ٦ ۔ آیت ١ ) ۔ اور حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کے زمانہ میں وہ قبلہ اہل توحید قرار دیا گیا ( کتاب مذکور ، باب ۸ ، آیت ۲۹ ۔ ۳۰ ) ۔ برعکس اس کے یہ تمام عرب کی متواتر اور متفق علیہ روایات سے ثابت ہے کہ کعبہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا ، اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے آٹھ نو سو برس پہلے گزرے ہیں ۔ لہٰذا کعبہ کی اولیت ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں ۔
ذکر بیت اللہ اور احکامات حج یعنی لوگوں کی عبادت قربانی طواف نماز اعتکاف وغیرہ کے لئے اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جس کے بانی حضرت ابراہیم خلیل ہیں ، جن کی تابعداری کا دعویٰ یہود و نصاریٰ مشرکین اور مسلمان سب کو ہے وہ اللہ کا گھر جو سب سے پہلے مکہ میں بنایا گیا ہے ، اور بلاشبہ خلیل اللہ ہی حج کے پہلے منادی کرنے والے ہیں تو پھر ان پر تعجب اور افسوس ہے جو ملت حنیفی کا دعویٰ کریں اور اس گھر کا احترام نہ کریں حج کو یہاں نہ آئیں بلکہ اپنے قبلہ اور کعبہ الگ الگ بناتے پھریں ۔ اس بیت اللہ کی بنیادوں میں ہی برکت و ہدایت ہے اور تمام جہان والوں کے لئے ہے ، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے پہلے کونسی مسجد بنائی گئی ہے؟ آپ نے فرمایا مسجد حرام ، پوچھا پھر کونسی؟ فرمایا مسجد بیت المقدس پوچھا ان دونوں کے درمیان کتنا وقت ہے؟ فرمایا چالیس سال پوچھا پھر کونسی؟ آپ نے فرمایا جہاں کہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لیا کرو ساری زمین مسجد ہے ( مسند ) احمد وبخاری مسلم ) حضرت علی فرماتے ہیں گھر تو پہلے بہت سے تھے لیکن خاص اللہ تعالیٰ کی عبادت کا گھر سب سے پہلا یہی ہے ، کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ زمین پر پہلا گھر یہی بنا ہے تو آپ نے فرمایا نہیں ہاں برکتوں اور مقام ابراہیم اور امن والا گھر یہی پہلا ہے ، بیت اللہ شریف کے بنانے کی پوری کیفیت سورۃ بقرہ کی آیت ( وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ ) 2 ۔ البقرۃ:125 ) کی تفسیر میں پہلے گذر چکی ہے وہیں ملاحظہ فرما لیجئے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، سدی کہتے ہیں سب سے پہلے روئے زمین پر یہی گھر بنا ، لیکن صحیح قول حضرت علی کا ہی ہے اور وہ حدیث جو ییہقی میں ہے جس میں ہے کہ آدم و حوا نے بحکم الہ بیت اللہ بنایا اور طواف کیا اور اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تو سب سے پہلا انسان ہے اور یہ سب سے پہلا گھر ہے یہ حدیث ابن لہیعہ کی روایت سے ہے اور وہ ضعیف راوی ہیں ، ممکن ہے یہ حضرت عبداللہ بن عمر کا اپنا قول ہو اور یرموک والے دن انہیں جو دو پورے اہل کتاب کی کتابوں کے ملے تھے انہی میں یہ بھی لکھا ہوا ہو ۔ مکہ مکہ شریف کا مشہور نام ہے چونکہ بڑے بڑے جابر شخصوں کی گردنیں یہاں ٹوٹ جاتی تھیں ہر بڑائی والا یہاں پست ہو جاتا تھا ، اس لئے اسے مکہ کہا گیا اور اس لئے بھی کہ لوگوں کی بھیڑ بھاڑ یہاں ہوتی ہے اور ہر وقت کھچا کھچ بھرا رہتا ہے اور اس لئے بھی کہ یہاں لوگ خلط ملط ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ کبھی عورتیں آگے نماز پڑھتی ہوتی ہیں اور مرد ان کے پیچھے ہوتے ہیں جو اور کہیں نہیں ہوتا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں فج سے تنعیم تک مکہ ہے بیت اللہ سے بطحا تک بکہ ہے بیت اللہ اور مسجد کو بکہ کہا گیا ہے ، بیت اللہ اور اس آس پاس کی جگہ کو بکہ اور باقی شہر کو مکہ بھی کہا گیا ہے ، اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں مثلاً بیت العتیق ، بیت الحرام ، بلد الامین ، بلد المامون ، ام رحم ، ام القری ، صلاح ، عرش ، قادس ، مقدس ، ناسبہ ، ناسسہ ، حاطمہ ، راس ، کوثا البلدہ البینۃ العکبہ ۔ اس میں ظاہر نشانیاں ہیں جو اس کی عظمت و شرافت کی دلیل ہیں اور جن سے ظاہر ہے کہ خلیل اللہ کی بنا یہی ہے اس میں مقام ابراہیم بھی ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت اسماعیل سے پتھر لے کر حضرت ابراہیم کعبہ کی دیواریں اونچی کر رہے تھے ، یہ پہلے تو بیت اللہ شریف کی دیوار سے لگا ہوا تھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسے ذرا ہٹا کر مشرق رخ کر دیا تھا کہ پوری طرح طواف ہو سکے اور جو لوگ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ان کے لئے پریشانی اور بھیڑ بھاڑ نہ ہو ، اسی کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہوا ہے اور اس کے متعلق بھی پوری تفسیر آیت ( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى ) 2 ۔ البقرۃ:125 ) کی تفسیر میں پہلے گذر چکی ہے فالحمد للہ ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں آیات بینات میں سے ایک مقام ابراہیم بھی ہے باقی اور بھی ہیں ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ خلیل اللہ کے قدموں کے نشان جو مقام ابراہیم پر تھے یہ بھی آیات بینات میں سے ہیں ، کل حرم کو اور حطیم کو اور سارے ارکان حج کو بھی مکہ امن والا رہا باپ کے قاتل کو بھی یہاں پاتے تو نہ چھیڑتے ابن عباس فرماتے ہیں بیت اللہ پناہ چاہنے والے کو پناہ دیتا ہے لیکن جگہ اور کھانا پینا نہیں دیتا اور جگہ ہے آیت ( اولم یروا انا جعلنا حرما امنا ) الخ ، کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنایا اور جگہ ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۭ اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ يَكْفُرُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت:67 ) ہم نے انہیں خوف سے امن دیا نہ صرف انسان کے لئے امن ہے بلکہ شکار کرنا بلکہ شکار کو بھگانا اسے خوف زدہ کرنا اسے اس کے ٹھکانے یا گھونسلے سے ہٹانا اور اڑانا بھی منع ہے اس کے درخت کاٹنا یہاں کی گھاس اکھیڑنا بھی ناجائز ہے اس مضمون کی بہت سی حدیثیں پورے بسط کے ساتھ آیت وعھدنا الخ ، کی تفسیر میں سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہیں ، مسند احمد ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے جسے امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے بازار حرورہ میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے مکہ تو اللہ تعالیٰ کو ساری زمین سے بہتر اور پیارا ہے اگر میں زبردستی تجھ سے نہ نکالا جاتا تو ہرگز تجھے نہ چھوڑتا ، اور اس آیت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جو اس گھر میں داخل ہوا وہ جہنم سے بچ گیا ، بیہقی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے جو بیت اللہ میں داخل ہوا وہ نیکی میں آیا اور برائیوں سے دور ہوا ، اور گناہ بخش دیا گیا لیکن اس کے ایک راوی عبداللہ بن تومل قوی نہیں ہیں ۔ آیت کا یہ آخری حصہ حج کی فرضیت کی دلیل ہے بعض کہتے ہیں آیت ( وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ ۭ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْي ) 2 ۔ البقرۃ:196 ) والی آیت دلیل فرضیت ہے لیکن پہلی بات زیادہ واضح ہے ، کئی ایک احادیث میں وارد ہے کہ حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے ، اس کی فرضیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے ، اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ عمر بھر میں ایک مرتبہ استطاعت والے مسلمان پر حج فرض ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا لوگو تم پر اللہ تعالیٰ نے حج فرض کیا ہے تم حج کرو ایک شخص نے پوچھا حضور کیا ہر سال؟ آپ خاموش رہے اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہ دیتا تو فرض ہو جاتا پھر بجا نہ لا سکتے میں جب خاموش رہوں تو تم کرید کر پوچھا نہ کرو تم سے اگلے لوگ اپنے انبیاء سے سوالوں کی بھر مار اور نبیوں پر اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے میرے حکموں کو طاقت بھر بجا لاؤ ۔ اور جس چیز میں منع کروں اس سے رک جاؤ ( مسند احمد ) صحیح مسلم شریف کی اس حدیث شریف میں اتنی زیادتی ہے کہ یہ پوچھنے والے اقرع بن حابس تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب یہ بھی فرمایا کہ عمر میں ایک مرتبہ فرض ہے اور پھر نفل ۔ ایک روایت میں ہے کہ اسی سوال کے بارے میں آیت ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ) 5 ۔ المائدہ:101 ) یعنی زیادتی سوال سے بچو نازل ہوئی ( مسند احمد ) ایک اور روایت میں ہے اگر میں ہاں کہتا تو ہر سال حج واجب ہوتا تم بجا نہ لا سکتے تو عذاب نازل ہوتا ( ابن ماجہ ) ہاں حج میں تمتع کرنے کا جواز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سائل کے سوال پر ہمیشہ کے لئے جائز فرمایا تھا ، ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں امہات المومنین یعنی اپنی بیویوں سے فرمایا تھا حج ہو چکا اب گھر سے نہ نکلنا ، رہی استطاعت اور طاقت سو وہ کبھی تو خود انسان کو بغیر کسی ذریعہ کے ہوتی ہے کبھی کسی اور کے واسطے سے جیسے کہ کتب احکام میں اس کی تفصیل موجود ہے ، ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ حاجی کون ہے؟ آپ نے فرمایا پراگندہ بالوں اور میلے کچیلے کپڑوں والا ایک اور نے پوچھا یا رسول اللہ کونسا حج افضل ہے ، آپ نے فرمایا جس میں قربانیاں کثرت سے کی جائیں اور لبیک زیادہ پکارا جائے ایک اور شخص نے سوال کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سبیل سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا توشہ بھتہ کھانے پینے کے لائق سامان خرچ اور سواری ، اس حدیث کا ایک راوی گو ضعیف ہے مگر حدیث کی متابعت اور سند بہت سے صحابیوں سے مختلف سندوں سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ( مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا ) 3 ۔ آل عمران:97 ) کی تفسیر میں زادو راحلہ یعنی توشہ اور سواری بتائی ہے ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فرض حج جلدی ادا کر لیا کرو نہ معلوم کل کیا پیش آئے ، ابو داؤد وغیرہ میں ہے حج کا ارادہ کرنے والے کو جلد اپنا ارادہ پورا کر لینا چاہئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں جس کے پاس تین سو درہم ہوں وہ طاقت والا ہے ، عکرمہ فرماتے ہیں مراد صحت جسمانی ہے پھر فرمایا جو کفر کرے یعنی فرضیت حج کا انکار کرے ، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جب یہ آیت اتری کہ دین اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور دین پسند کرے اس سے قبول نہ کیا جائے گا تو یہودی کہنے لگے ہم بھی مسلمان ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر مسلمانوں پر تو حج فرض ہے تم بھی حج کرو تو وہ صاف انکار بیٹھے جس پر یہ آیت اتری کہ اس کا انکاری کافر ہے اور اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بےپرواہ ہے ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کھانے پینے اور سواری پر قدرت رکھتا ہو اور اتنا مال بھی اس کے پاس ہو پھر حج نہ کرے تو اس کی موت یہودیت یا نصرانیت پر ہو گی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ کے لئے لوگوں پر حج بیت اللہ ہے جو اس کے راستہ کی طاقت رکھیں اور جو کفر کرے تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بےپرواہ ہے ، اس کے راوی پر بھی کلام ہے ، حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں طاقت رکھ کر حج نہ کرنے والا یہودی ہو کر مرے گا یا نصرانی ہو کر ، اس کی سند بالکل صحیح ہے ( حافظ ابو بکر اسماعیلی ) مسند سعید بن منصور میں ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرا مقصد ہے کہ میں لوگوں کو مختلف شہروں میں بھیجوں وہ دیکھیں جو لوگ باوجود مال رکھنے کے حج نہ کرتے ہوں ان پر جزیہ لگا دیں وہ مسلمان نہیں ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں ۔