Surah

Information

Surah # 37 | Verses: 182 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 56 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعۡىَ قَالَ يٰبُنَىَّ اِنِّىۡۤ اَرٰى فِى الۡمَنَامِ اَنِّىۡۤ اَذۡبَحُكَ فَانْظُرۡ مَاذَا تَرٰى‌ؕ قَالَ يٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ‌ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيۡنَ‏ ﴿102﴾
پھر جب وہ ( بچہ ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے ، تو اس ( ابراہیم علیہ السلام ) نے کہا کہ میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔
فلما بلغ معه السعي قال يبني اني ارى في المنام اني اذبحك فانظر ما ذا ترى قال يابت افعل ما تؤمر ستجدني ان شاء الله من الصبرين
And when he reached with him [the age of] exertion, he said, "O my son, indeed I have seen in a dream that I [must] sacrifice you, so see what you think." He said, "O my father, do as you are commanded. You will find me, if Allah wills, of the steadfast."
Phir jab woh ( bacha ) itni umar ko phoncha kay uss kay sath chalay phiray to uss ( ibrahim alh-e-salam ) ney kaha meray piyaray bachay! Mein khuwab mein apnay aap ko tujhay zibah kertay huyey dekh raha hun. Abb tu bata kay teri kiya raye hai? Betay ney jawab diya kay abba! Jo hukum hua hai ussay baja layiye inshaAllah aap mujhay sabar kerney walon mein say payen gay.
پھر جب وہ لڑکا ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے کہا : بیٹے ! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں ، اب سوچ کر بتاؤ ، تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا : ابا جان ! آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے ۔ ( ٢٠ ) انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔
پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا میں تجھے ذبح کرتا ہوں ( ف۹۸ ) اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے ( ف۹۹ ) کہا اے میرے باپ کی جیئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے ، خدا نے چاہتا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے ،
وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ( ایک روز ) ابراہیم ( علیہ السلام ) نے اس سے کہا ، بیٹا ، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں 58 ، اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے ؟ 59 اس نے کہا ، ‘’ ابا جان ، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے 60 اسے کر ڈالیے ، آپ انشاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے ‘’ ،
0پھر جب وہ ( اسماعیل علیہ السلام ) ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکنے ( کی عمر ) کو پہنچ گیا تو ( ابراہیم علیہ السلام نے ) فرمایا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے ۔ ( اسماعیل علیہ السلام نے ) کہا: ابّاجان! وہ کام ( فوراً ) کر ڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے ۔ اگر اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :58 یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں یہ نہیں دیکھا تھا کہ انہوں نے بیٹے کو ذبح کر دیا ہے ، بلکہ یہ دیکھا تھا کہ وہ اسے ذبح کر رہے ہیں ۔ اگرچہ اس وقت وہ خواب کا مطلب یہی سمجھے تھے کہ وہ صاحبزادے کو ذبح کر دیں ۔ اسی بنا پر وہ ٹھنڈے دل سے بیٹا قربان کر دینے کے لیے بالکل تیار ہو گئے تھے ۔ مگر خواب دکھانے میں جو باریک نکتہ اللہ تعالیٰ نے ملحوظ رکھا تھا اسے آگے کی آیت نمبر 105 میں اس نے خود کھول دیا ہے ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :59 صاحبزادے سے یہ بات پوچھنے کا مدعا یہ نہ تھا کہ تو راضی ہو تو خدا کے فرمان کی تعمیل کروں ۔ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام دراصل یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ جس صالح اولاد کی انہوں نے دعا مانگی تھی ، وہ فی الواقع کس قدر صالح ہے ۔ اگر وہ خود بھی اللہ کی خوشنودی پر جان قربان کر دینے کے لیے تیار ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دعا مکمل طور پر قبول ہوئی ہے اور بیٹا محض جسمانی حیثیت ہی سے ان کی اولاد نہیں ہے بلکہ اخلاقی و روحانی حیثیت سے بھی ان کا سپوت ہے ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :60 یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ پیغمبر باپ کے خواب کو بیٹے نے محض خواب نہیں بلکہ خدا کا حکم سمجھا تھا ۔ اب اگر یہ فی الواقع حکم نہ ہوتا تو ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ صراحۃً یا اشارۃً اس امر کی تصریح فرما دیتا کہ فرزند ابراہیم نے غلط فہمی سے اس کو حکم سمجھ لیا ۔ لیکن پورا سیاق و سباق ایسے کسی اشارے سے خالی ہے ۔ اسی بنا پر اسلام میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ انبیاء کا خواب محض خواب نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے ۔ ظاہر ہے کہ جس بات سے ایک اتنا بڑا قاعدہ خدا کی شریعت میں شامل ہو سکتا ہو ، وہ اگر مبنی بر حقیقت نہ ہوتی بلکہ محض ایک غلط فہمی ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی تردید نہ فرماتا ۔ قرآن کو کلام الہٰی ماننے والے کے لیے یہ تسلیم کرنا محال ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسی بھول چوک بھی صادر ہو سکتی ہے ۔