Surah

Information

Surah # 37 | Verses: 182 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 56 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
فَالۡتَقَمَهُ الۡحُوۡتُ وَهُوَ مُلِيۡمٌ‏ ﴿142﴾
تو پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا اور وہ خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگ گئے ۔
فالتقمه الحوت و هو مليم
Then the fish swallowed him, while he was blameworthy.
To phir unhen machli ney nigal liya aur woh khud apnay aap ko malamat kerney lag gaye.
پھر مچھلی نے انہیں نگل لیا ، جبکہ وہ اپنے آپ کو ملامت کر رہے تھے ۔
پھر اسے مچھلی نے نگل لیا اور وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا تھا ( ف۱۲٦ )
آخرکار مچھلی نے اسے نگل لیا اور وہ ملامت زدہ تھا 79 ۔
پھر مچھلی نے ان کو نگل لیا اور وہ ( اپنے آپ پر ) نادم رہنے والے تھے
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :79 ان فقروں پر غور کرنے سے جو صورت واقعہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ: ( 1 ) حضرت یونس جس کشتی میں سوار ہوئے تھے وہ اپنی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ( Overloaded ) تھی ۔ ( 2 ) قرعہ اندازی کشتی میں ہوئی ، اور غالباً اس وقت جب بحری سفر کے دوران میں یہ محسوس ہوا کہ بوجھ کی زیادتی کے سبب سے تمام مسافروں کی جان خطرے میں پڑ گئی ہے ۔ لہٰذا قرعہ اس غرض کے لیے ڈالا گیا کہ جس کا نام قرعہ میں نکلے اسے پانی میں پھینک دیا جائے ۔ ( 3 ) قرعہ میں حضرت یونس ہی کا نام نکلا ، وہ سمندر میں پھینک دیے گئے اور ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا ۔ ( 4 ) اس ابتلا میں حضرت یونس اس لیے مبتلا ہوئے کہ وہ اپنے آقا ( یعنی اللہ تعالیٰ ) کی اجازت کے بغیر اپنے مقام ماموریت سے فرار ہو گئے تھے ۔ اس معنی پر لفظ اَبَقَ بھی دلالت کرتا ہے جس کی تشریح اوپر حاشیہ نمبر 78 میں گزرچکی ہے ، اور اسی معنی پر لفظ مُلِیْم بھی دلالت کرتا ہے ۔ مُلیم ایسے قصور وار آدمی کو کہتے ہیں جو اپنے قصور کی وجہ سے آپ ہی ملامت کا مستحق ہو گیا ہو ، خواہ اسے ملامت کی جائے یا نہ کی جائے ( یقال قد الام الرجل اذا اتیٰ ما یلام علیہ من الامر و ان لم یُلِم ۔ ابن جریر )