سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :79
ان فقروں پر غور کرنے سے جو صورت واقعہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ:
( 1 ) حضرت یونس جس کشتی میں سوار ہوئے تھے وہ اپنی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ( Overloaded ) تھی ۔
( 2 ) قرعہ اندازی کشتی میں ہوئی ، اور غالباً اس وقت جب بحری سفر کے دوران میں یہ محسوس ہوا کہ بوجھ کی زیادتی کے سبب سے تمام مسافروں کی جان خطرے میں پڑ گئی ہے ۔ لہٰذا قرعہ اس غرض کے لیے ڈالا گیا کہ جس کا نام قرعہ میں نکلے اسے پانی میں پھینک دیا جائے ۔
( 3 ) قرعہ میں حضرت یونس ہی کا نام نکلا ، وہ سمندر میں پھینک دیے گئے اور ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا ۔
( 4 ) اس ابتلا میں حضرت یونس اس لیے مبتلا ہوئے کہ وہ اپنے آقا ( یعنی اللہ تعالیٰ ) کی اجازت کے بغیر اپنے مقام ماموریت سے فرار ہو گئے تھے ۔ اس معنی پر لفظ اَبَقَ بھی دلالت کرتا ہے جس کی تشریح اوپر حاشیہ نمبر 78 میں گزرچکی ہے ، اور اسی معنی پر لفظ مُلِیْم بھی دلالت کرتا ہے ۔ مُلیم ایسے قصور وار آدمی کو کہتے ہیں جو اپنے قصور کی وجہ سے آپ ہی ملامت کا مستحق ہو گیا ہو ، خواہ اسے ملامت کی جائے یا نہ کی جائے ( یقال قد الام الرجل اذا اتیٰ ما یلام علیہ من الامر و ان لم یُلِم ۔ ابن جریر )