سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :86
یہاں سے ایک دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے ۔ پہلا مضمون آیت نمبر 11 سے شروع ہوا تھا جس میں کفار مکہ کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تھا ان سے پوچھو ، کیا ان کا پیدا کرنا زیادہ مشکل کام ہے یا ان چیزوں کا جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں ۔ اب انہی کے سامنے یہ دوسرا سوال پیش کیا جا رہا ہے ۔ پہلے سوال کا منشا کفار کو ان کی اس گمراہی پر متنبہ کرنا تھا کہ وہ زندگی بعد موت اور جزا و سزا کو غیر ممکن الوقوع سمجھتے تھے اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے تھے ۔ اب یہ دوسرا سوال ان کی اس جہالت پر متنبہ کرنے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد منسوب کرتے تھے اور قیاسی گھوڑے دوڑا کر جس کا چاہتے تھے اللہ سے رشتہ جوڑ دیتے تھے ۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :87
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں قریش ، جُہینہ ، بنی سَلِمہ ، خزاعہ ، بن مُلیح اور بعض دوسرے قبائل کا عقیدہ یہ تھا کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان کے اس جاہلانہ عقیدے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو النساء ، آیت 117 ۔ النحل آیات 57 ۔ 58 ۔ بنی اسرائیل ، آیت 40 ۔ الزخرف ، آیات 16 تا 19 ۔ النجم ، آیات 21 تا 27 ۔