Surah

Information

Surah # 37 | Verses: 182 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 56 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
فَاسۡتَفۡتِهِمۡ اَلِرَبِّكَ الۡبَنَاتُ وَلَهُمُ الۡبَنُوۡنَۙ‏ ﴿149﴾
ان سے دریافت کیجئے! کہ کیا آپ کے رب کی تو بیٹیاں ہیں اور ان کے بیٹے ہیں؟
فاستفتهم الربك البنات و لهم البنون
So inquire of them, [O Muhammad], "Does your Lord have daughters while they have sons?
Inn say daryaft kijiye! Kay kiya aap kay rab ki to betiyan hain aur inn kay betay hain?
اب ان ( مکہ کے مشرکوں ) سے پوچھو کہ : کیا ( اے پیغمبر ) تمہارے رب کے حصے میں تو بیٹیاں آئی ہیں اور خود ان کے حصے میں بیٹے؟ ( ٢٩ )
تو ان سے پوچھو کیا تمہارے رب کے لیے بیٹیاں ہیں ( ف۱۳٦ ) اور ان کے بیٹے ( ف۱۳۷ )
پھر ذرا ان لوگوں سے پوچھو 86 ، کیا ( ان کے دل کو یہ بات لگتی ہے کہ ) تمہارے رب کے لیے تو ہوں بیٹیاں اور ان کے لیے ہوں بیٹے ! 87
پس آپ اِن ( کفّارِ مکّہ ) سے پوچھئے کیا آپ کے رب کے لئے بیٹیاں ہیں اور ان کے لئے بیٹے ہیں
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :86 یہاں سے ایک دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے ۔ پہلا مضمون آیت نمبر 11 سے شروع ہوا تھا جس میں کفار مکہ کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تھا ان سے پوچھو ، کیا ان کا پیدا کرنا زیادہ مشکل کام ہے یا ان چیزوں کا جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں ۔ اب انہی کے سامنے یہ دوسرا سوال پیش کیا جا رہا ہے ۔ پہلے سوال کا منشا کفار کو ان کی اس گمراہی پر متنبہ کرنا تھا کہ وہ زندگی بعد موت اور جزا و سزا کو غیر ممکن الوقوع سمجھتے تھے اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے تھے ۔ اب یہ دوسرا سوال ان کی اس جہالت پر متنبہ کرنے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد منسوب کرتے تھے اور قیاسی گھوڑے دوڑا کر جس کا چاہتے تھے اللہ سے رشتہ جوڑ دیتے تھے ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :87 روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں قریش ، جُہینہ ، بنی سَلِمہ ، خزاعہ ، بن مُلیح اور بعض دوسرے قبائل کا عقیدہ یہ تھا کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان کے اس جاہلانہ عقیدے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو النساء ، آیت 117 ۔ النحل آیات 57 ۔ 58 ۔ بنی اسرائیل ، آیت 40 ۔ الزخرف ، آیات 16 تا 19 ۔ النجم ، آیات 21 تا 27 ۔
مشرکین کا اللہ تعالیٰ کے لئے دوہرا معیار ۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کی بیوقوفی بیان فرما رہا ہے کہ اپنے لئے تو لڑکے پسند کرتے ہیں اور اللہ کے لئے لڑکیاں مقرر کرتے ہیں ۔ اگر لڑکی ہونے کی خبر یہ پائیں تو چہرے سیاہ پڑ جاتے ہیں اور اللہ کی لڑکیاں ثابت کرتے ہیں ۔ پس فرماتا ہے ان سے پوچھ تو سہی کہ یہ تقسیم کیسی ہے؟ کہ تمہارے تو لڑکے ہوں اور اللہ کے لئے لڑکیاں ہوں؟ پھر فرماتا ہے کہ یہ فرشتوں کو لڑکیاں کس ثبوت پر کہتے ہیں؟ کیا ان کی پیدائش کے وقت وہ موجود تھے ۔ قرآن کی اور آیت ( وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَةَ الَّذِيْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ۭاَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ ۭ سَـتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْــَٔــلُوْنَ 19؀ ) 43- الزخرف:19 ) ، میں بھی یہی بیان ہے ۔ دراصل یہ قول ان کا محض جھوٹ ہے ۔ کہ اللہ کے ہاں اولاد ہے ۔ وہ اولاد سے پاک ہے ۔ پس ان لوگوں کے تین جھوٹ اور تین کفر ہوئے اول تو یہ کہ فرشتے اللہ کی اولاد ہیں دوسرے یہ کہ اولاد بھی لڑکیاں تیسرے یہ کہ خود فرشتوں کی عبادت شروع کر دی ۔ پھر فرماتا ہے کہ آخر کس چیز نے اللہ کو مجبور کیا کہ اس نے لڑکے تو لئے نہیں اور لڑکیاں اپنی ذات کے لئے پسند فرمائیں؟ جیسے اور آیت میں ہے کہ تمہیں تو لڑکوں سے نوازے اور فرشتوں کو اپنی لڑکیاں بنائے یہ تو تمہاری نہایت درجہ کی لغویات ہے ۔ یہاں فرمایا کیا تمہیں عقل نہیں جو ایسی دور از قیاس باتیں بناتے ہو تم سمجھتے نہیں ہو ڈرو کہ اللہ پر جھوٹ باندھنا کیسا برا ہے؟ اچھا گر کوئی دلیل تمہارے پاس ہو تو لاؤ اسی کو پیش کرو ۔ یا اگر کسی آسمانی کتاب سے تمہارے اس قول کی سند ہو اور تم سچے ہو تو لاؤ اسی کو سامنے لے آؤ ۔ یہ تو ایسی لچر اور فضول بات ہے جس کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہو ہی نہیں سکتی ۔ اتنے ہی پر بس نہ کی ، جنات میں اور اللہ میں بھی رشتے داری قائم کی ۔ مشرکوں کے اس قول پر کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں حضرت صدیق اکبر نے سوال کیا کہ پھر ان کی مائیں کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا جن سرداروں کی لڑکیاں ۔ حالانکہ خود جنات کو اس کا یقین و علم ہے کہ اس قول کے قائل قیامت کے دن عذابوں میں مبتلا کئے جائیں گے ۔ ان میں بعض دشمنان اللہ تو یہاں تک کم عقلی کرتے تھے کہ شیطان بھی اللہ کا بھائی ہے ۔ نعوذ باللہ ۔ اللہ تعالیٰ اس سے بہت پاک منزہ اور بالکل دور ہے جو یہ مشرک اس کی ذات پر الزام لگاتے ہیں اور جھوٹے بہتان باندھتے ہیں ۔ اس کے بعد استثناء منقطع ہے اور بےمثبت مگر اس صورت میں کہ یعفون کی ضمیر کا مرجع تمام لوگ قرار دیئے جائیں ۔ پس ان میں سے ان لوگوں کو الگ کر لیا جو حق کے ماتحت ہیں اور تمام نبیوں رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ استثناء ( انھم لمحضرون ) سے ہے یعنی سب کے سب عذاب میں پھانس لئے جائیں گے مگر وہ بندگان جو اخلاص والے تھے ۔ یہ قول ذرا تامل طلب ہے واللہ اعلم ۔