Surah

Information

Surah # 38 | Verses: 88 | Ruku: 5 | Sajdah: 1 | Chronological # 38 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَانْطَلَقَ الۡمَلَاُ مِنۡهُمۡ اَنِ امۡشُوۡا وَاصۡبِرُوۡا عَلٰٓى اٰلِهَتِكُمۡ‌ ‌ۖۚ‌ اِنَّ هٰذَا لَشَىۡءٌ يُّرَادُ ۖ‌ۚ‏ ﴿6﴾
ان کے سردار یہ کہتے ہوئے چلے کہ چلو جی اور اپنے معبودوں پر جمے رہو یقیناً اس بات میں تو کوئی غرض ہے ۔
و انطلق الملا منهم ان امشوا و اصبروا على الهتكم ان هذا لشيء يراد
And the eminent among them went forth, [saying], "Continue, and be patient over [the defense of] your gods. Indeed, this is a thing intended.
Unn kay sardaar yeh kehtay huyey chalay kay chalo ji aur apnay maboodon per jamay raho yaqeenan iss baat mein to koi gharz hai.
اور ان میں کے سردار لوگ یہ کہہ کر چلتے بنے کہ : چلو اور اپنے خداؤں ( کی عبادت ) پر ڈٹے رہو یہ بات تو ایسی ہے کہ اس کے پیچھے کچھ اور ہی ارادے ہیں ۔ ( ٣ )
اور ان میں کے سردار چلے ( ف۹ ) کہ اس کے پاس سے چل دو اور اپنے خداؤں پر صابر رہو بیشک اس میں اس کا کوئی مطلب ہے ،
اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ 6 ‘’ چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر ۔ یہ بات 7 تو کسی اور ہی غرض سے کہی جا رہی ہے 8 ۔
اور اُن کے سردار ( ابوطالب کے گھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے اٹھ کر ) چل کھڑے ہوئے ( باقی لوگوں سے ) یہ کہتے ہوئے کہ تم بھی چل پڑو ، اور اپنے معبودوں ( کی پرستش ) پر ثابت قدم رہو ، یہ ضرور ایسی بات ہے جس میں کوئی غرض ( اور مراد ) ہے
سورة صٓ حاشیہ نمبر :6 اشارہ ہے ان سرداروں کی طرف جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر ابو طالب کی مجلس سے اٹھ گئے تھے ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :7 یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کے قائل ہو جاؤ تو عرب و عجم سب تمہارے تابع فرمان ہو جائیں گے ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :8 ان کا مطلب یہ تھا کہ اس دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے ، دراصل یہ دعوت اس غرض سے دی جا رہی ہے کہ ہم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے تابع فرمان ہو جائیں اور یہ ہم پر اپنا حکم چلائیں ۔