Surah

Information

Surah # 38 | Verses: 88 | Ruku: 5 | Sajdah: 1 | Chronological # 38 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قَالَ لَقَدۡ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعۡجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖ‌ ؕ وَاِنَّ كَثِيۡرًا مِّنَ الۡخُلَـطَآءِ لَيَبۡغِىۡ بَعۡضُهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ اِلَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِيۡلٌ مَّا هُمۡ‌ ؕ وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰهُ فَاسۡتَغۡفَرَ رَبَّهٗ وَخَرَّ رَاكِعًا وَّاَنَابَ‏ ﴿24﴾
آپ نے فرمایا! اس کا اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری ایک دنبی ملا لینے کا سوال بیشک تیرے اوپر ایک ظلم ہے اور اکثر حصہ دار اور شریک ( ایسے ہی ہوتے ہیں کہ ) ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں ، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں اور ( حضرت ) داؤد ( علیہ السلام ) سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے ، پھر تو اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور ( پوری طرح ) رجوع کیا ۔
قال لقد ظلمك بسؤال نعجتك الى نعاجه و ان كثيرا من الخلطاء ليبغي بعضهم على بعض الا الذين امنوا و عملوا الصلحت و قليل ما هم و ظن داود انما فتنه فاستغفر ربه و خر راكعا و اناب
[David] said, "He has certainly wronged you in demanding your ewe [in addition] to his ewes. And indeed, many associates oppress one another, except for those who believe and do righteous deeds - and few are they." And David became certain that We had tried him, and he asked forgiveness of his Lord and fell down bowing [in prostration] and turned in repentance [to Allah ].
Aap ney farmaya! Iss ka apni dunbiyon kay sath teri aik dunbi mila lenay ka sawal be-shak teray upper aik zulm hai aur aksar hissay daar aur shareek ( aisay hi hotay hain kay ) aik doosray per zulm kertay hain siwaye unn kay jo eman laye aur jinhon ney nek amal kiyey aur aisay log boht hi kum hain aur ( hazrat ) dawwod ( alh-e-salam ) samajh gaye kay hum ney unhen aazmaya hai phir to apnay rab say istaghfaar kerney lagay aur aajzi kertay huyey gir paray aur ( poori tarah ) rujoo kiya.
داؤد نے کہا : اس نے اپنی دنبیوں میں شامل کرنے کے لیے تمہاری دنبی کا جو مطالبہ کیا ہے اس میں یقینا تم پر ظلم کیا ہے ۔ اور بہت سے لوگ جن کے درمیان شرکت ہوتی ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں ، سوائے ان کے جو ایمان لائے ہیں ، اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ، اور وہ بہت کم ہیں ۔ اور داؤد کو خیال آیا کہ ہم نے دراصل ان کی آزمائش کی ہے ، اس لیے انہوں نے اپنے پروردگار سے معافی مانگی ، جھک کر سجدے میں گر گئے اور اللہ سے لو لگائی ۔
داؤد نے فرمایا بیشک یہ تجھ پر زیادتی کرتا ہے کہ تیری دُنبی اپنی دُنبیوں میں ملانے کو مانگتا ہے ، اور بیشک اکثر ساجھے والے ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور وہ بہت تھوڑے ہیں ( ف۳۸ ) اب داؤد سمجھا کہ ہم نے یہ اس کی جانچ کی تھی ( ف۳۹ ) تو اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر پڑا ( ف٤۰ ) اور رجوع لایا ، ( السجدة ۱۰ )
داؤد نے جواب دیا : ‘’ اس شخص نے اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملا لینے کا مطالبہ کر کے یقینا تجھ پر ظلم کیا 25 ، اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں ، بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عمل صالح کرتے ہیں ، اور ایسے لوگ کم ہی ہیں ‘’ ( یہ بات کہتے کہتے ) داؤد سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمائش کی ہے ، چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کر لیا 26 ۔
داؤد ( علیہ السلام ) نے کہا: تمہاری دُنبی کو اپنی دُنبیوں سے ملانے کا سوال کر کے اس نے تم سے زیادتی کی ہے اور بیشک اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ، اور ایسے لوگ بہت کم ہیں ۔ اور داؤد ( علیہ السلام ) نے خیال کیا کہ ہم نے ( اس مقدّمہ کے ذریعہ ) اُن کی آزمائش کی ہے ، سو انہوں نے اپنے رب سے مغفرت طلب کی اور سجدہ میں گر پڑے اور توبہ کی
سورة صٓ حاشیہ نمبر :25 یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ حضرت داؤد نے ایک ہی فریق کی بات سن کر اپنا فیصلہ کیسے دے دیا ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب مدعی کی شکایت پر مدعا علیہ خاموش رہا اور اس کی تردید میں کچھ نہ بولا تو یہ خود ہی اس کے اقرار کا ہم معنی تھا ۔ اس بنا پر حضرت داؤد نے یہ رائے قائم کی کہ واقعہ وہی کچھ ہے جو مدعی بیان کر رہا ہے ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :26 اس امر میں اختلاف ہے کہ اس مقام پر سجدہ تلاوت واجب ہے یا نہیں ۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ یہاں سجدہ واجب نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک نبی کی توبہ ہے ۔ اور امام ابوحنیفہ وجوب کے قائل ہیں ۔ اس سلسلے میں ابن عباس سے تین روایتیں محدثین نے نقل کی ہیں ۔ عکرمہ کی روایت یہ ہے کہ ابن عباس نے فرمایا یہ ان آیات میں سے نہیں ہے جن پر سجدہ لازم ہے مگر میں نے اس مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرتے دیکھا ہے ۔ ( بخاری ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، مسند احمد ) ۔ دوسری روایات جو ان سے سعید بن جُبیر نے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ سورہ ص میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور فرمایا: داؤد علیہ السلام نے توبہ کے طور پر سجدہ کیا تھا اور ہم شکر کے طور پر سجدہ کرتے ہیں یعنی اس بات پر کہ ان کی توبہ قبول ہوئی ( نسائی ) ۔ تیسری روایت جو مجاہد نے ان سے نقل کی ہے اس میں وہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ اُلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللہُ فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہ ، یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ نے راہ راست دکھائی تھی ، لہٰذا تم ان کے طریقے کی پیروی کرو ۔ اب چونکہ حضرت داؤد بھی ایک نبی تھے اور انہوں نے اس موقع پر سجدہ کیا تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے اقتدا میں یہاں سجدہ فرمایا ( بخاری ) ۔ یہ تین بیانات تو حضرت ابن عباس کے ہیں ۔ اور حضرت ابوسعید خدری کا بیان یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبہ میں سورہ ص پڑھی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سے اتر کر سجدہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب حاضرین نے بھی سجدہ کیا ۔ پھر ایک دوسرے موقع پر اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سورہ پڑھی تو اس آیت کو سنتے ہی لوگ سجدہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک نبی کی توبہ ہے ، مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ سجدے کے لیے تیار ہو گئے ہو ــــــ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور سجدہ کیا اور سب حاضرین نے بھی کیا ( ابوداؤد ) ۔ ، ان روایات سے اگرچہ وجوب سجدہ کی قطعی دلیل تو نہیں ملتی ، لیکن کم از کم اتنی بات تو ضرور ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر اکثر سجدہ فرمایا ہے ، اور سجدہ نہ کرنے کی بہ نسبت وجوب کے حکم کا پلڑا جھکا دیتی ہے ۔ ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے ، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں خَرَّ رَاکِعاً ( رکوع میں گر پڑا ) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ، مگر تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد خَرَّ سَاجِداً ( سجدہ میں گر پڑا ) ہے ۔ اسی بنا پر امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب نے یہ رائے ظاہر فرمائی ہے کہ نماز یا غیر نماز میں آیت سجدہ سن کر یا پڑھ کر آدمی سجدے کے بجائے صرف رکوع بھی کر سکتا ہے ، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے رکوع کا لفظ استعمال کر کے سجدہ مراد لیا ہے تو معلوم ہوا کہ رکوع سجدے کا قائم مقام ہو سکتا ہے ۔ فقہائے شافعیہ میں سے امام خَطَّابی کی بھی یہی رائے ہے ۔ یہ رائے اگرچہ بجائے خود صحیح اور معقول ہے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عمل میں ہم کو ایسی کوئی نظیر نہیں ملی کہ آیت سجدہ پر سجدہ کرنے کے بجائے رکوع ہی کر لینے پر اکتفا کیا گیا ہو ۔ لہٰذا اس رائے پر عمل صرف اس صورت میں کرنا چاہیے جب سجدہ کرنے میں کوئی امر مانع ہو ۔ اسے معمول بنا لینا درست نہیں ہے ، اور خود امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا منشا بھی یہ نہیں ہے کہ اسے معمول بنایا جائے ، بلکہ وہ صرف اس کے جواز کے قائل ہیں ۔