Surah

Information

Surah # 38 | Verses: 88 | Ruku: 5 | Sajdah: 1 | Chronological # 38 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَاذۡكُرۡ عِبٰدَنَاۤ اِبۡرٰهِيۡمَ وَاِسۡحٰقَ وَيَعۡقُوۡبَ اُولِى الۡاَيۡدِىۡ وَالۡاَبۡصَارِ‏ ﴿45﴾
ہمارے بندوں ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب ( علیہم السلام ) کا بھی لوگوں سے ذکر کرو جو ہاتھوں اور آنکھوں والے تھے ۔
و اذكر عبدنا ابرهيم و اسحق و يعقوب اولي الايدي و الابصار
And remember Our servants, Abraham, Isaac and Jacob - those of strength and [religious] vision.
Humaray bandon ibarhim, ishaq aur yaqoob ( al-e-heem-us-salam ) ka bhi zikar kero jo hathon aur aankhon walay thay.
اور ہمارے بندوں ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب کو یاد کرو جو ( نیک عمل کرنے والے ) ہاتھ اور ( دیکھنے والی ) آنکھیں رکھتے تھے ۔
اور یاد کرو ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب قدرت اور علم والوں کو ( ف٦۹ )
اور ہمارے بندوں ، ابراہیم ( علیہ السلام ) اور اسحاق ( علیہ السلام ) اور یعقوب ( علیہ السلام ) کا ذکر کرو ۔ بڑی قوت عمل رکھنے والے اور دیدہ ور لوگ تھے 48 ۔
اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب ( علیھم السلام ) کا ذکر کیجئے جو بڑی قوّت والے اور نظر والے تھے
سورة صٓ حاشیہ نمبر :48 اصل الفاظ ہیں اُولِی الْاَیْدِیْ وَالْاَبْصَارِ ( ہاتھوں والے اور نگاہوں والے ) ۔ ہاتھ سے مراد ، جیسا کہ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں ، قوت و قدرت ہے ۔ اور ان انبیاء کو صاحب قوت و قدرت کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نہایت با عمل لوگ تھے ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور معصیتوں سے بچنے کی زبردست طاقت رکھتے تھے ، اور دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے انہوں نے بڑی کوششیں کی تھیں ۔ نگاہ سے مراد آنکھوں کی بینائی نہیں بلکہ دل کی بصیرت ہے ۔ وہ حق ہیں اور حقیقت شناس لوگ تھے ۔ دنیا میں اندھوں کی طرح نہیں چلتے تھے بلکہ آنکھیں کھول کر علم و معرفت کی پوری روشنی میں ہدایت کا سیدھا راستہ دیکھتے ہوئے چلتے تھے ۔ ان الفاظ میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جو لوگ بد عمل اور گمراہ ہیں وہ درحقیقت ہاتھوں اور آنکھوں ، دونوں سے محروم ہیں ۔ ہاتھ والا حقیقت میں وہی ہے جو اللہ کی راہ میں کام کرے اور آنکھوں والا دراصل وہی ہے جو حق کی روشنی اور باطل کی تاریکی میں امتیاز کرے ۔
اللہ تعالیٰ اپنے عابد بندوں اور رسولوں کی فضیلتوں کو بیان فرما رہا ہے اور ان کے نام گنوا رہا ہے ابراہیم اسحاق اور یعقوب صلواۃ اللہ وسلامہ علیہم اجمعین اور فرماتا ہے کہ ان کے اعمال بہت بہتر تھے اور صحیح علم بھی ان میں تھا ۔ ساتھ ہی عبادت الٰہی میں قوی تھے اور قدرت کی طرف سے انہیں بصیرت عطا فرمائی گئی تھی ۔ دین میں سمجھدار تھے اطاعت اللہ میں قوی تھے حق کے دیکھنے والے تھے ۔ ان کے نزدیک دنیا کی کوئی اہمیت نہ تھی صرف آخرت کا ہی ہر وقت خیال بندھا رہتا تھا ۔ ہر عمل آخرت کے لئے ہی ہوتا تھا ۔ دنیا کی محبت سے وہ الگ تھے ، آخرت کے ذکر میں ہر وقت مشغول رہتے تھے ۔ وہ اعمال کرتے تھے جو جنت دلوائیں ، لوگوں کو بھی نیک اعمال کی ترغیب دیتے تھے ۔ انہیں اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن بہترین بدلے اور افضل مقامات عطا فرمائے گا ۔ یہ بزرگان دین اللہ کے چیدہ مخلص اور خاص الخاص بندے ہیں ۔ اسماعیل اور ذوالکفل صلوات و سلامہ علیہم اجمعین بھی پسندیدہ اور خاص بندوں میں تھے ۔ ان کے بیانات سورہ انبیاء میں گذر چکے ہیں اس لئے ہم نے یہاں بیان نہیں کئے ۔ ان فضائل کے بیان میں ان کے لئے نصیحت ہے جو پند و نصیحت حاصل کرنے کے لئے عادی ہیں اور یہ مطلب بھی ہے کہ یہ قرآن عظیم ذکر یعنی نصیحت ہے ۔