Surah

Information

Surah # 38 | Verses: 88 | Ruku: 5 | Sajdah: 1 | Chronological # 38 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَخُذۡ بِيَدِكَ ضِغۡثًا فَاضۡرِبْ بِّهٖ وَلَا تَحۡنَثۡ‌ؕ اِنَّا وَجَدۡنٰهُ صَابِرًا‌ ؕ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ‌ ؕ اِنَّـهٗۤ اَوَّابٌ‏ ﴿44﴾
اور اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا ( جھاڑو ) لے کر مار دے اور قسم کا خلاف نہ کر سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اسے بڑا صابر بندہ پایا ، وہ بڑا نیک بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے والا ۔
و خذ بيدك ضغثا فاضرب به و لا تحنث انا وجدنه صابرا نعم العبد انه اواب
[We said], "And take in your hand a bunch [of grass] and strike with it and do not break your oath." Indeed, We found him patient, an excellent servant. Indeed, he was one repeatedly turning back [to Allah ].
Aur apnay hath mein tinko ka aik mutha ( jhaaro ) ley ker maar day aur qasam ka khilaf na ker sach to yeh hai kay hum ney ussay bara sabir banda paya woh bara nek banda tha aur bari hi raghbat rakhney wala.
اور ( ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ ) اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا لو ، اور اس سے مار دو ، اور اپنی قسم مت توڑو ۔ ( ٢٣ ) حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انہیں بڑا صبر کرنے والا پایا ، وہ بہترین بندے تھے ، واقعہ وہ اللہ سے خوب لو لگائے ہوئے تھے ۔
اور فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دے ( ف٦۷ ) اور قسم نہ توڑ بےہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ ( ف٦۸ ) بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ہے ،
۔ ( اور ہم نے اس سے کہا ) تنکوں کا ایک مٹھا لے اور اس سے مار دے ، اپنی قسم نہ توڑ 46 ۔ ہم نے اسے صابر پایا ، بہترین بندہ ، اپنے رب کی طرف بہت رجوع کرنے والا 47 ۔
۔ ( اے ایوب! ) تم اپنے ہاتھ میں ( سَو ) تنکوں کی جھاڑو پکڑ لو اور ( اپنی قسم پوری کرنے کے لئے ) اس سے ( ایک بار اپنی زوجہ کو ) مارو اور قسم نہ توڑو ، بے شک ہم نے اسے ثابت قدم پایا ، ( ایّوب علیہ السلام ) کیا خوب بندہ تھا ، بے شک وہ ( ہماری طرف ) بہت رجوع کرنے والا تھا
سورة صٓ حاشیہ نمبر :46 ان الفاظ پر غور کرنے سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت ایوب نے بیماری کی حالت میں ناراض ہو کر کسی کو مارنے کی قسم کھا لی تھی ، ( روایات یہ ہیں کہ بیوی کو مارنے کی قسم کھائی تھی ) اور اس قسم ہی میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تجھے اتنے کوڑے ماروں گا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت عطا فرما دی اور حالت مرض کا وہ غصہ دور ہو گیا جس میں یہ قسم کھائی گئی تھی ، تو ان کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ قسم پوری کرتا ہوں تو خواہ مخواہ ایک بے گناہ کو مارنا پڑے گا ، اور قسم توڑتا ہوں تو یہ بھی ایک گناہ کا ارتکاب ہے ۔ اس مشکل سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح نکالا کہ انہیں حکم دیا ، ایک جھاڑو لو جس میں اتنے ہی تنکے ہوں جتنے کوڑے تم نے مارنے کی قسم کھائی تھی ، اور اس جھاڑو سے اس شخص کو بس ایک ضرب لگا دو ، تاکہ تمہاری قسم بھی پوری ہو جائے اور اسے ناروا تکلیف بھی نہ پہنچے ۔ بعض فقہاء اس رعایت کو حضرت ایوب علیہ السلام کے لیے خاص سمجھتے ہیں ، اور بعض فقہا کے نزدیک دوسرے لوگ بھی اس رعایت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ پہلی رائے ابن عساکر نے حضرت عبداللہ بن عباس سے اور ابوبکر جَصّاص نے مجاہد سے نقل کی ہے ، اور امام مالک رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے ۔ دوسری رائے کو امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد ، امام زُفَر اور امام شافعی رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مثلاً اپنے خادم کو دس کوڑے مارنے کی قسم کھا بیٹھا ہو اور بعد میں دسوں کوڑے ملا کر اسے صرف ایک ضرب اس طرح لگا دے کہ ہر کوڑے کا کچھ نہ کچھ حصہ اس شخص کو ضرور لگ جائے ، تو اس کی قسم پوری ہو جائے گی ۔ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے زانی پر حد جاری کرنے کے معاملے میں بھی اس آیت کا بتایا ہوا طریقہ استعمال فرمایا ہے جو اتنا بیمار یا اتنا ضعیف ہو کہ سو دروں کی مار برداشت نہ کر سکے ۔ علامہ ابو بکر جصاص نے حضرت سعید بن عبادہ سے روایت نقل کی ہے کہ قبیلہ بنی ساعد میں ایک شخص سے زنا کا ارتکاب ہوا اور وہ ایسا مریض تھا کہ بس ہڈی اور چمڑا رہ گیا تھا ۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ خذوا عثکالاً فیہ مأۃ شمراخ فاضربوہ بھا ضربۃ واحدۃ ، کھجور کا ایک ٹہنا لو جس میں سو شاخیں ہوں اور اس سے بیک وقت اس شخص کو ماردو ( احکام القرآن ) ۔ مسند احمد ، ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، طبرانی ، عبدالرزاق اور دوسری کتب حدیث میں بھی اس کی تائید کرنے والی کئی حدیثیں موجود ہیں جن سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض اور ضعیف پر حد جاری کرنے کے لیے یہی طریقہ مقرر فرمایا تھا ۔ البتہ فقہاء نے اس کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ ہر شاخ یا ہر تنکا کچھ نہ کچھ مجرم کو لگ جانا چاہیے ، اور ایک ہی ضرب سہی ، مگر وہ کسی نہ کسی حد تک مجرم کو چوٹ لگانے والی بھی ہونی چاہیے ۔ یعنی محض چھو دینا کافی نہیں ہے ، بلکہ مارنا ضروری ہے ۔ یہاں یہ بحث بھی پیدا ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک بات کی قسم کھا بیٹھا ہو اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ نامناسب بات ہے تو اسے کیا کرنا چاہیے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت یہ ہے کہ آپ نے فرمایا اس صورت میں آدمی کو وہی کام کرنا چاہیے جو بہتر ہو اور یہی کفارہ ہے ۔ دوسری روایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ہے کہ اس نامناسب کام کے بجائے آدمی وہ کام کرے جو اچھا ہو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے ۔ یہ آیت اسی دوسری روایت کی تائید کرتی ہے ۔ کیونکہ ایک نامناسب کام نہ کرنا ہی اگر قسم کا کفارہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ حضرت ایوب علیہ السلام سے یہ نہ فرماتا کہ تم ایک جھاڑو مار کر اپنی قسم پوری کر لو ، بلکہ یہ فرماتا کہ تم یہ نامناسب کام نہ کرو اور اسے نہ کرنا ہی تمہاری قسم کا کفارہ ہے ۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آدمی نے جس بات کی قسم کھائی ہو اسے فوراً پورا کرنا ضروری نہیں ہے ۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے قسم بیماری کی حالت میں کھائی تھی اور اسے پورا تندرست ہونے کے بعد کیا ، اور تندرست ہونے کے بعد بھی فوراً ہی نہیں کر دیا ۔ بعض لوگوں نے اس آیت کو حیلہ شرعی کے لیے دلیل قرار دیا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ایک حیلہ ہی تھا جو حضرت ایوب علیہ السلام کو بتایا گیا تھا ، لیکن وہ کسی فرض سے بچنے کے لیے نہیں بلکہ ایک برائی سے بچنے کے لیے بتایا گیا تھا ۔ لہٰذا شریعت میں صرف وہی حیلے جائز ہیں جو آدمی کو اپنی ذات سے یا کوئی دوسرے شخص سے ظلم اور گناہ اور برائی کو دفع کرنے کے لیے اختیار کیے جائیں ۔ ورنہ حرام کو حلال کرنے یا فرائض کو ساقط کرنے یا نیکی سے بچنے کے لیے حیلہ سازی گناہ در گناہ ہے ۔ بلکہ اس کے ڈانڈے کفر سے جا ملتے ہیں ۔ کیونکہ جو شخص ان کی ناپاک اغراض کے لیے حیلہ کرتا ہے وہ گویا خدا کو دھوکا دینا چاہتا ہے ۔ مثلاً جو شخص زکوٰۃ سے بچنے کے لیے سال ختم ہونے سے پہلے اپنا مال کسی اور کی طرف منتقل کر دیتا ہے وہ محض ایک فرض ہی سے فرار نہیں کرتا ۔ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اس ظاہری فعل سے دھوکا کھا جائے گا اور اسے فرض سے سبکدوش سمجھ لے گا ۔ جن فقہاء نے اس طرح کے حیلے اپنی کتابوں میں درج کیے ہیں ان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احکام شریعت سے جان چھڑانے کے لیے یہ حیلہ بازیاں کرنی چاہییں ۔ بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گناہ کو قانونی شکل دے کر بچ نکلے تو قاضی یا حاکم اس پر گرفت نہیں کر سکتا ، اس کا معاملہ خدا کے حوالے ہے ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :47 حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر اس سیاق و سباق میں یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کے نیک بندے جب مصائب و شدائد میں مبتلا ہوتے ہیں تو اپنے رب سے شکوہ سنج نہیں ہوتے بلکہ صبر کے ساتھ اس کی ڈالی ہوئی آزمائشوں کو برداشت کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں ۔ ان کا یہ طریقہ نہیں ہوتا کہ اگر کچھ مدت تک خدا سے دعا مانگتے رہنے پر بلا نہ ٹلے تو پھر اس سے مایوس ہو کر دوسروں کے آستانوں پر ہاتھ پھیلانا شروع کر دیں ۔ بلکہ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ملنا ہے اللہ ہی کے ہاں سے ملنا ہے ، اس لیے مصیبتوں کا سلسلہ چاہے کتنا ہی دراز ہو ، وہ اسی کی رحمت کے امیدوار بنے رہتے ہیں ۔ اسی لیے وہ ان الطاف و عنایات سے سرفراز ہوتے ہیں جن کی مثال حضرت ایوب علیہ السلام کی زندگی میں ملتی ہے ۔ حتیٰ کہ اگر وہ کبھی مضطرب ہو کر کسی اخلاقی مخمصے میں پھنس بھی جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں برائی سے بچانے کے لیے ایک راہ نکال دیتا ہے جس طرح اس نے حضرت ایوب علی السلام کے لیے نکال دی ۔