Surah

Information

Surah # 38 | Verses: 88 | Ruku: 5 | Sajdah: 1 | Chronological # 38 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلٰٓٮِٕكَةِ اِنِّىۡ خَالِـقٌ ۢ بَشَرًا مِّنۡ طِيۡنٍ‏ ﴿71﴾
جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں ۔
اذ قال ربك للملىكة اني خالق بشرا من طين
[So mention] when your Lord said to the angels, "Indeed, I am going to create a human being from clay.
Jabkay aap kay rab ney farishton say irshad farmaya kay mein mitti say insan ko peda kerney wala hun.
یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں گارے سے ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں ۔
جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بناؤں گا ( ف۹۳ )
جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا 59‘’ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں 60 ،
۔ ( وہ وقت یاد کیجئے ) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ( گیلی ) مٹی سے ایک پیکرِ بشریت پیدا فرمانے والا ہوں
سورة صٓ حاشیہ نمبر :59 یہ جھگڑے کی تفصیل ہے جس کی طرف اوپر کی آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور جھگڑے سے مراد شیطان کا خدا سے جھگڑا ہے جیسا کہ آگے کے بیان سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ ملاءِ اعلیٰ سے مراد فرشتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شیطان کا مکالمہ دو بدو نہیں بلکہ کسی فرشتے ہی کے توسط سے ہوا ہے ۔ اس لیے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بھی ملاء اعلیٰ میں شامل تھا ۔ جو قصہ یہاں بیان کیا جا رہا ہے وہ اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکا ہے : تفہیم القرآن جلد اول ، ص 61 تا 69 ۔ جلد دوم ، صفحات 10 تا 18 ۔ 504 تا 507 ۔ 627 تا 630 ۔ جلد سوم صفحات 29 ۔ 30 ۔ 129 تا 136 ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :60 بَشَر کے لغوی معنی ہیں جسم کثیف جس کی ظاہری سطح کسی دوسری چیز سے ڈھکی ہوئی نہ ہو ۔ انسان کی تخلیق کے بعد تو یہ لفظ انسان ہی کے لیے استعمال ہونے لگا ہے ۔ لیکن تخلیق سے پہلے اس کا ذکر لفظ بشر سے کرنے اور اس کو مٹی سے بنانے کا صاف مطلب یہ ہے کہ میں مٹی کا ایک پتلا بنانے والا ہوں جو بال و پر سے عاری ہو گا ۔ یعنی جس کی جلد دوسرے حیوانات کی طرح اون ، یا صوف یا بالوں اور پروں سے ڈھکی ہوئی نہ ہو گی ۔
تخلیق آدم اور ابلیس کی سرکشی ۔ یہ قصہ سورہ بقرہ ، سورہ اعراف ، سورہ حجر ، سورہ سبحان ، سورہ کہف اور اس سورہ ص میں بیان ہوا ہے ۔ حضرت آدم کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اپنا ارادہ بتایا کہ میں مٹی سے آدم کو پیدا کرنے والا ہوں ۔ جب میں اسے پیدا کر چکوں تو تم سب اسے سجدہ کرنا تاکہ میری فرمانبرداری کے ساتھ ہی حضرت آدم کی شرافت و بزرگی کا بھی اظہار ہو جائے ۔ پس کل کے کل فرشتوں نے تعمیل ارشاد کی ۔ ہاں ابلیس اس سے رکا ، یہ فرشتوں کی جنس میں سے تھا بھی نہیں بلکہ جنات میں سے تھا ۔ طبعی خباثت اور جبلی سرکشی ظاہر ہو گئی ۔ سوال ہوا کہ اتنی معزز مخلوق کو جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تو نے میرے کہنے کے باوجود سجدہ کیوں نہ کیا ؟ یہ تکبر! اور یہ سرکشی؟ تو کہنے لگا کہ میں اس سے افضل و اعلیٰ ہوں کہاں آگ اور کہاں مٹی؟ اس خطا کار نے اس کے سمجھنے میں بھی غلطی کی اور اللہ کے حکم کی مخالفت کی وجہ سے غارت ہو گیا حکم ہوا کہ میرے سامنے سے منہ ہٹا میرے دربار میں تجھ جیسے نافرمانوں کی رسائی نہیں تو میری رحمت سے دور ہو گیا اور تجھ پر ابدی لعنت نازل ہوئی اور اب تو خیرو خوبی سے مایوس ہو جا ۔ اس نے اللہ سے دعا کی کہ قیامت تک مجھے مہلت دی جائے ۔ اس حلیم اللہ نے جو اپنی مخلوق کو ان کے گناہوں پر فوراً نہیں پکڑتا اس کی یہ التجا پوری کر دی اور قیامت تک کی اسے مہلت دے دی ۔ اب کہنے لگا میں تو اس کی تمام اولاد کو بہکا دوں گا صرف مخلص لوگ تو بچ جائیں گے منظور اللہ بھی یہی تھا جیسا کہ قرآن کریم کی اور آیتوں میں بھی ہے مثلا ( قَالَ اَرَءَيْتَكَ هٰذَا الَّذِيْ كَرَّمْتَ عَلَيَّ ۡ لَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلًا 62؀ ) 17- الإسراء:62 ) اور ( اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ 42؀ ) 15- الحجر:42 ) فالحق کو حضرت مجاہد نے پیش سے پڑھا ہے معنی یہ ہیں کہ میں خود حق ہوں اور میری بات بھی حق ہی ہوتی ہے اور ایک روایت میں ان سے یوں مروی ہے کہ حق میری طرف سے ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں اوروں نے دونوں لفظ زبر سے پڑھے ہیں ۔ سدی کہتے ہیں یہ قسم ہے ۔ میں کہتا ہوں یہ آیت اس آیت کی طرح ہے ( وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ 13؀ ) 32- السجدة:13 ) یعنی میرا یہ قول اٹل ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو اس قسم کے انسانوں اور جنوں سے پر کر دونگا اور جیسے فرمان ہے ( اذھب فمن تبعک ) الخ ، یہاں سے نکل جا جو شخص بھی تیری مانے گا اس کی اور تیری پوری سزا جہنم ہے ۔