Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
تَنۡزِيۡلُ الۡكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَكِيۡمِ‏ ﴿1﴾
اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالٰی غالب با حکمت کی طرف سے ہے ۔
تنزيل الكتب من الله العزيز الحكيم
The revelation of the Qur'an is from Allah , the Exalted in Might, the Wise.
Iss kitab ka utaarna Allah Taalaa ghalib ba-hikmat ki taraf say hai.
یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل کی جارہی ہے ، جو بڑے اقتدار کا مالک ہے ، بہت حکمت والا ہے ۔
کتاب ( ف۲ ) اتارنا ہے اللہ عزت و حکمت والے کی طرف سے ،
اس کتاب کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے 1 ۔
اس کتاب کا اتارا جانا اﷲ کی طرف سے ہے جو بڑی عزت والا ، بڑی حکمت والا ہے
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :1 یہ اس سورہ کی مختصر تمہید ہے جس میں بس یہ بتانے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام نہیں ہے ، جیسا کہ منکرین کہتے ہیں ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے خود نازل فرمایا ہے ۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا ذکر کر کے سامعین کو دو حقیقتوں پر متنبہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اس کلام کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں بلکہ اس کی اہمیت محسوس کریں ۔ ایک یہ کہ جس خدا نے اسے نازل کیا ہے وہ عزیز ہے ، یعنی ایسا زبردست ہے کہ اس کے ارادوں اور فیصلوں کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی اور کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ اس کے مقابلہ میں ذرہ برابر بھی مزاحمت کر سکے ۔ دوسرے یہ کہ وہ حکیم ہے ، یعنی جو ہدایت وہ اس کتاب میں دے رہا ہے وہ سراسر دانائی پر مبنی ہے اور صرف ایک جاہل و نادان آدمی ہی اس سے منہ موڑ سکتا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، السجدہ ، حاشیہ نمبر 1 ۔ )
باطل عقائد کی تردید ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ یہ قرآن عظیم اسی کا کلام ہے اور اسی کا اتارا ہوا ہے ۔ اس کے حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے ( وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٩٢؀ۭ ) 26- الشعراء:192 ) ، یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے ۔ جسے روح الامین لے کر اترا ہے ۔ تیرے دل پر اترا ہے تاکہ تو آگاہ کرنے والا بن جائے ۔ صاف فصیح عربی زبان میں ہے اور آیتوں میں ہے یہ باعزت کتاب وہ ہے جس کے آگے یا پیچھے سے باطل آ ہی نہیں سکتا یہ حکمتوں والی تعریفوں والے اللہ کی طرف سے اتری ہے ۔ یہاں فرمایا کہ یہ کتاب بہت بڑے عزت والے اور حکمت والے اللہ کی طرف سے اتری ہے جو اپنے اقوال افعال شریعت تقدیر سب میں حکمتوں والا ہے ۔ ہم نے تیری طرف اس کتاب کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے ۔ تجھے چاہیے کہ خود اللہ کی عبادتوں میں اور اس کی توحید میں مشغول رہ کر ساری دنیا کو اسی طرف بلا ، کیونکہ اس اللہ کے سوا کسی کی عبادت زیبا نہیں ، وہ لاشریک ہے ، وہ بےمثال ہے ، اس کا شریک کوئی نہیں ۔ دین خالص یعنی شہادت توحید کے لائق وہی ہے ۔ پھر مشرکوں کا ناپاک عقیدہ بیان کیا کہ وہ فرشتوں کو اللہ کا مرقب جان کر ان کی خیالی تصویریں بنا کر ان کی پوجا پاٹ کرنے لگے یہ سمجھ کر یہ اللہ کے لاڈلے ہیں ، ہمیں جلدی اللہ کا مقرب بنا دیں گے ۔ پھر تو ہماری روزیوں میں اور ہر چیز میں خوب برکت ہو جائے گی ۔ یہ مطلب نہیں کہ قیامت کے روز ہمیں وہ نزدیکی اور مرتبہ دلوائیں گے ۔ اس لئے کہ قیامت کے تو وہ قائل ہی نہ تھے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ انہیں اپنا سفارشی جانتے تھے ۔ جاہلیت کے زمانہ میں حج کو جاتے تو وہاں لبیک پکارتے ہوئے کہتے اللہ ہم تیرے پاس حاضر ہوئے ۔ تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسے شریک جن کے اپنے آپ کا مالک بھی تو ہی ہے اور جو چیزیں ان کے ماتحت ہیں ان کا بھی حقیقی مالک تو ہی ہے ۔ یہی شبہ اگلے پچھلے تمام مشرکوں کو رہا اور اسی کو تمام انبیاء علیہم السلام رد کرتے رہے اور صرف اللہ تعالیٰ واحد کی عبادت کی طرف انہیں بلاتے رہے ۔ یہ عقیدہ مشرکوں نے بےدلیل گھڑ لیا تھا جس سے اللہ بیزار تھا ۔ فرماتا ہے ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا 36؀ ) 16- النحل:36 ) ، یعنی ہر امت میں ہم نے رسول بھیجے کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو اور فرمایا ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ 25؀ ) 21- الأنبياء:25 ) ، یعنی تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف یہی وحی کی کہ معبود برحق صرف میں ہی ہوں پس تم سب میری ہی عبادت کرنا ۔ ساتھ ہی یہ بھی بیان فرما دیا کہ آسمان میں جس قدر فرشتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی بڑے مرتبے والے کیوں نہ ہوں سب کے سب اس کے سامنے لاچار عاجز اور غلاموں کی مانند ہیں اتنا بھی تو اختیار نہیں کہ کسی کی سفارش میں لب ہلا سکیں ۔ یہ عقیدہ محض غلط ہے کہ وہ اللہ کے پاس ایسے ہیں جیسے بادشاہوں کے پاس امیر امراء ہوتے ہیں کہ جس کی وہ سفارش کر دیں اس کا کام بن جاتا ہے اس باطل اور غلط عقیدے سے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ کے سامنے مثالیں نہ بیان کیا کرو ۔ اللہ اسے بہت بلند و بالا ہے ۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا سچا فیصلہ کر دے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا ان سب کو جمع کر کے فرشتوں سے سوال کرے گا کہ کیا یہ لوگ تمہیں پوجتے تھے؟ وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ہے ، یہ نہیں بلکہ ہمارا ولی تو تو ہی ہے یہ لوگ تو جنات کی پرستش کرتے تھے اور ان میں سے اکثر کا عقیدہ و ایمان انہی پر تھا ۔ اللہ تعالیٰ انہیں راہ راست نہیں دکھاتا جن کا مقصود اللہ پر جھوٹ بہتان باندھنا ہو اور جن کے دل میں اللہ کی آیتوں ، اس کی نشانیوں اور اس کی دلیلوں سے کفر بیٹھ گیا ہو ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے عقیدے کی نفی کی جو اللہ کی اولاد ٹھہراتے تھے مثلاً مشرکین مکہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں ۔ یہود کہتے تھے عزیز اللہ کے لڑکے ہیں ۔ عیسائی گمان کرتے تھے کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں ۔ پس فرمایا کہ جیسا ان کا خیال ہے اگر یہی ہوتا تو اس امر کے خلاف ہوتا ، پس یہاں شرط نہ تو واقع ہونے کے لئے ہے نہ امکان کے لئے ۔ بلکہ محال کے لئے ہے اور مقصد صرف ان لوگوں کی جہالت بیان کرنے کا ہے ۔ جیسے فرمایا ( لَـوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّآ ڰ اِنْ كُنَّا فٰعِلِيْنَ 17؀ ) 21- الأنبياء:17 ) اگر ہم ان بیہودہ باتوں کا ارادہ کرتے تو اپنے پاس سے ہی بنا لیتے اگر ہم کرنے والے ہی ہوئے اور آیت میں ہے ( قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ 81؀ ) 43- الزخرف:81 ) یعنی کہدے کہ اگر رحمان کی اولاد ہوتی تو میں تو سب سے پہلے اس کا قائل ہوتا ۔ پس یہ سب آیتیں شرط کو محال کے ساتھ متعلق کرنے والی ہیں ۔ امکان یا وقوع کے لئے نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ نہ یہ ہو سکتا ہے نہ وہ ہو سکتا ہے ۔ اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے وہ فرد احد ، صمد اور واحد ہے ۔ ہر چیز اس کی ماتحت فرمانبردار عاجز محتاج فقیر بےکس اور بےبس ہے ۔ وہ ہر چیز سے غنی ہے سب سے بےپرواہ ہے سب پر اس کی حکومت اور غلبہ ہے ، ظالموں کے ان عقائد سے اور جاہلوں کی ان باتوں سے اس کی ذات مبرا و منزہ ہے ۔