Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَلَا لِلّٰهِ الدِّيۡنُ الۡخَالِصُ‌ ؕ وَالَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءَ‌ ۘ مَا نَعۡبُدُهُمۡ اِلَّا لِيُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلۡفٰى ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَحۡكُمُ بَيۡنَهُمۡ فِىۡ مَا هُمۡ فِيۡهِ يَخۡتَلِفُوۡنَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِىۡ مَنۡ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ‏ ﴿3﴾
خبردار اللہ تعالیٰ ہی کے لیےٴ خالص عبادت کرنا ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیاء بنا رکھے ہیں ﴿اور کہتے ہیں ﴾کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیےٴ کرتے ہیں کہ یہ ﴿بزرگ﴾ اللہ کی نزدیکی کے مرتبے تک ہماری رسایٴ کرادیں یہ لوگ جس کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں اس کا ﴿سچا﴾ فیصلہ اللہ ﴿خود﴾ کرے گا ۔ جھوٹے اور ناشکرے ﴿لوگوں﴾ کو اللہ تعالیٰ راہ نہیں دکھاتا ۔
الا لله الدين الخالص و الذين اتخذوا من دونه اولياء ما نعبدهم الا ليقربونا الى الله زلفى ان الله يحكم بينهم في ما هم فيه يختلفون ان الله لا يهدي من هو كذب كفار
Unquestionably, for Allah is the pure religion. And those who take protectors besides Him [say], "We only worship them that they may bring us nearer to Allah in position." Indeed, Allah will judge between them concerning that over which they differ. Indeed, Allah does not guide he who is a liar and [confirmed] disbeliever.
Khabradaar! Allah Taalaa hi kay liye khalis ibadat kerna hai aur jin logon ney uss kay siwa auliya bana rakhay hain ( aur kehtay hain ) kay hum inn ki ibadat sirf iss liye kertay hain kay yeh ( buzurg ) Allah kay nazdeeki kay martabay tak humari rasaee kera den yeh log jiss baray mein ikhtilaf ker rahey hain iss ka ( sacha ) faisla Allah ( khud ) keray ga. Jhootay aur na-shukray ( logon ) ko Allah Taalaa raah nahi dikhata.
یاد رکھو کہ خالص بندگی اللہ ہی کا حق ہے ۔ اور جن لوگوں نے اس کے بجائے دوسرے رکھوالے بنا لیے ہیں ۔ ( یہ کہہ کر کہ ) ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں ۔ ( ١ ) ان کے درمیان اللہ ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں ۔ یقین رکھو کہ اللہ کسی ایسے شخص کو راستے پر نہیں لاتا جو جھوٹا ہو ، کفر پر جما ہوا ہو ۔
ہاں خالص اللہ ہی کی بندگی ہے ( ف٤ ) اور وہ جنہوں نے اس کے سوا اور والی بنالیے ( ف۵ ) کہتے ہیں ہم تو انہیں ( ف٦ ) صرف اتنی بات کے لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے پاس نزدیک کردیں ، اللہ ان پر فیصلہ کردے گا اس بات کا جس میں اختلاف کررہے ہیں ( ف۷ ) بیشک اللہ راہ نہیں دیتا اسے جو جھوٹا بڑا ناشکرا ہو ( ف۸ )
خبردار ، دین خالص اللہ کا حق ہے 4 ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں ( اور اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ ) ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں 5 ، اللہ یقینا ان کے درمیان ان تمام باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں 6 ۔ اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو ۔ 7
۔ ( لوگوں سے کہہ دیں: ) سُن لو! طاعت و بندگی خالصۃً اﷲ ہی کے لئے ہے ، اور جن ( کفّار ) نے اﷲ کے سوا ( بتوں کو ) دوست بنا رکھا ہے ، وہ ( اپنی بُت پرستی کے جھوٹے جواز کے لئے یہ کہتے ہیں کہ ) ہم اُن کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اﷲ کا مقرّب بنا دیں ، بے شک اﷲ اُن کے درمیان اس چیز کا فیصلہ فرما دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں ، یقیناً اﷲ اس شخص کو ہدایت نہیں فرماتا جو جھوٹا ہے ، بڑا ناشکر گزار ہے
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :4 یہ امر واقعہ اور ایک حقیقت ہے جسے اوپر کے مطالبے کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے لیے دین کو خالص کر کے اس کی بندگی تم کو کرنی چاہیے کیونکہ خالص اور بے آمیز اطاعت و بندگی اللہ کا حق ہے ۔ دوسرے الفاظ میں ، بندگی کا مستحق کوئی دوسرا ہے ہی نہیں کہ اللہ کے ساتھ اس کی بھی پرستش اور اس کے احکام و قوانین کی بھی اطاعت کی جائے ۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی خالص اور بے آمیز بندگی کرتا ہے تو غلط کرتا ہے ۔ اور اسی طرح اگر وہ اللہ کی بندگی کے ساتھ بندگیٔ غیر کی آمیزش کرتا ہے تو یہ بھی حق کے سراسر خلاف ہے ۔ اس آیت کی بہترین تشریح وہ حدیث ہے جو ابن مَردُوْیہ نے یزید الرّقاشی سے نقل کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، ہم اپنا مال دیتے ہیں اس لیے کہ ہمارا نام بلند ہو ، کیا اس پر ہمیں کوئی اجر ملے گا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔ اس نے پوچھا اگر اللہ کے اجر اور دنیا کی ناموری دونوں کی نیت ہو؟ آپ نے فرمایا ان اللہ تعالیٰ لا یقبل الّا من اخلص لہٗ ، اللہ تعالیٰ کوئی عمل بھی قبول نہیں کرتا جب تک وہ خالص اسی کے لیے نہ ہو ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :5 کفار مکہ کہتے تھے ، اور بالعموم دنیا بھر کے مشرکین یہی کہتے ہیں کہ ہم دوسری ہستیوں کی عبادت ان کو خالق سمجھتے ہوئے نہیں کرتے ۔ خالق تو ہم اللہ ہی کو مانتے ہیں اور اصل معبود اسی کو سمجھتے ہیں ۔ لیکن اس کی بارگاہ بہت اونچی ہے جس تک ہماری رسائی بھلا کہاں ہو سکتی ہے ۔ اس لیے ہم ان بزرگ ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں تاکہ یہ ہماری دعائیں اور التجائیں اللہ تک پہنچا دیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :6 یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اتفاق و اتحاد صرف توحید ہی میں ممکن ہے ۔ شرک میں کوئی اتفاق نہیں ہو سکتا ۔ دنیا کے مشرکین کبھی اس پر متفق نہیں ہوئے ہیں کہ اللہ کے ہاں رسائی کا ذریعہ آخر کون سی ہستیاں ہیں ۔ کسی کے نزدیک کچھ دیوتا اور دیویاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی سب دیوتاؤں اور دیویوں پر اتفاق نہیں ہے ۔ کسی کے نزدیک چاند ، سورج ، مریخ ، مشتری اس کا ذریعہ ہیں اور وہ بھی آپس میں اس پر متفق نہیں کہ ان میں سے کس کا کیا مرتبہ ہے اور کون اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ کسی کے نزدیک وفات یافتہ بزرگ ہستیاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی بے شمار اختلافات ہیں ۔ کوئی کسی بزرگ کو مان رہا ہے اور کوئی کسی اور کو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مختلف ہستیوں کے بارے میں یہ گمان نہ تو کسی علم پر مبنی ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی کوئی ایسی فہرست آئی ہے کہ فلاں فلاں اشخاص ہیں ، لہٰذا ہم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تم ان کو ذریعہ بناؤ ۔ یہ تو ایک ایسا عقیدہ ہے جو محض وہم اور اندھی عقیدت اور اسلاف کی بے سوچے سمجھے تقلید سے لوگوں میں پھیل گیا ہے ۔ اس لیے لامحالہ اس میں اختلاف تو ہونا ہی ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :7 یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے دو الفاظ استعمال فرمائے ہیں ۔ ایک کاذب دوسرے کفار ۔ کاذب ان کو اس لیے فرمایا گیا کہ انہوں نے اپنی طرف سے جھوٹ موٹ یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے اور پھر یہی جھوٹ وہ دوسروں میں پھیلاتے ہیں ۔ رہا کفار ، تو اس کے دو معنی ہیں ۔ ایک سخت منکر حق ، یعنی توحید کی تعلیم سامنے آجانے کے بعد بھی یہ لوگ اس غلط عقیدے پر مصر ہیں ۔ دوسرے ، کافر نعمت ، یعنی نعمتیں تو یہ لوگ اللہ سے پا رہے ہیں اور شکریے ان ہستیوں کے ادا کر رہے ہیں جن کے متعلق انہوں نے اپنی جگہ یہ فرض کر لیا ہے کہ یہ نعمتیں ان کی مداخلت کے سبب سے مل رہی ہیں ۔