Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
لَوۡ اَرَادَ اللّٰهُ اَنۡ يَّـتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصۡطَفٰى مِمَّا يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُ‌ ۙ سُبۡحٰنَهٗ‌ ؕ هُوَ اللّٰهُ الۡوَاحِدُ الۡقَهَّارُ‏ ﴿4﴾
اگر اللہ تعالٰی کا ارادہ اولاد ہی کا ہوتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا ۔ ( لیکن ) وہ تو پاک ہے ، وہ وہی اللہ تعالٰی ہے یگانہ اور قوت والا ۔
لو اراد الله ان يتخذ ولدا لاصطفى مما يخلق ما يشاء سبحنه هو الله الواحد القهار
If Allah had intended to take a son, He could have chosen from what He creates whatever He willed. Exalted is He; He is Allah , the One, the Prevailing.
Agar Allah Taalaa ka iradah aulad hi ka hota to apni makhlooq mein say jissay chahata chun leta. ( lekin ) woh to pak hai wo wohi Allah Taalaa hai yagana aur qooat wala.
اگر اللہ یہ چاہتا کہ کسی کو اولاد بنائے تو وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا منتخب کرلیتا ، ( لیکن ) وہ پاک ہے ( اس بات سے کہ اس کی کوئی اولاد ہو ) وہ تو اللہ ہے ، ایک ، اور زبردست اقتدار کا مالک ۔
اللہ اپنے لیے بچہ بناتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا ( ف۹ ) پاکی ہے اسے ( ف۱۰ ) وہی ہے ایک اللہ ( ف۱۱ ) سب پر غالب ،
اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جسکو چاہتا برگزیدہ کر لیتا 8 ، پاک ہے وہ اس سے ( کہ کوئی اس کا بیٹا ہو ) ، وہ اللہ ہے اکیلا اور سب پر غالب9 ۔
اگر اﷲ ارادہ فرماتا کہ ( اپنے لئے ) اولاد بنائے تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا منتخب فرما لیتا ، وہ پاک ہے ، وہی اﷲ ہے جو یکتا ہے سب پر غالب ہے
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :8 یعنی اللہ کا بیٹا ہونا تو سرے سے ہی ناممکن ہے ۔ ممکن اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ کسی کو اللہ برگزیدہ کر لے ۔ اور برگزیدہ بھی جس کو وہ کرے گا ، لامحالہ وہ مخلوق ہی میں سے کوئی ہو گا ، کیونکہ اللہ کے سوا دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ مخلوق ہے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ مخلوق خواہ کتنی ہی برگزیدہ ہو جائے ، اولاد کی حیثیت اختیار نہیں کر سکتی ، کیونکہ خالق اور مخلوق میں عظیم الشان جوہری فرق ہے ، اور ولدیت لازماً والد اور اولاد میں جوہری اتحاد کی مقتضی ہے ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو ایسا کرتا کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اللہ نے ایسا کرنا کبھی نہیں چاہا ۔ اس طرز بیان سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کسی کو بیٹا بنا لینا تو درکنار ، اللہ نے تو ایسا کرنے کا کبھی ارادہ بھی نہیں کیا ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :9 یہ دلائل ہیں جن سے عقیدہ ولدیت کی تردید کی گئی ہے ۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص اور عیب اور کمزوری سے پاک ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ اولاد کی ضرورت ناقص و کمزور کو ہوا کرتی ہے ۔ جو شخص فانی ہوتا ہے وہی اس کا محتاج ہوتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہو تاکہ اس کی نسل اور نوع باقی رہے ۔ اور کسی کو متبنّیٰ بھی وہی شخص بناتا ہے جو یا تو لا وارث ہونے کی وجہ سے کسی کو وارث بنانے کی حاجت محسوس کرتا ہے ، یا محبت کے جذبے سے مغلوب ہو کر کسی کو بیٹا بنا لیتا ہے ۔ یہ انسانی کمزوریاں اللہ کی طرف منسوب کرنا اور ان کی بنا پر مذہبی عقیدے بنا لینا جہالت اور کم نگاہی کے سوا اور کیا ہے ۔ دوسری دلیل یہ ہے وہ اکیلا اپنی ذات میں واحد ہے ، کسی جنس کا فرد نہیں ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ اولاد لازماً ہم جنس ہوا کرتی ہے ۔ نیز اولاد کا کوئی تصور ازدواج کے بغیر نہیں ہو سکتا ، اور ازدواج بھی ہم جنس سے ہی ہو سکتا ہے ۔ لہٰذا وہ شخص جاہل و نادان ہے جو اس یکتا و یگانہ ہستی کے لیے اولاد تجویز کرتا ہے ۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ وہ قہار ہے ۔ یعنی دنیا میں جو چیز بھی ہے اس سے مغلوب اور اسکی قاہرانہ گرفت میں جکڑی ہوئی ہے ۔ اس کائنات میں کوئی کسی درجے میں بھی اس سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا جس کی بنا پر اس کے متعلق یہ گمان کیا جا سکتا ہو کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا کوئی رشتہ ہے ۔