Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اِنۡ تَكۡفُرُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنۡكُمۡ‌ وَلَا يَرۡضٰى لِعِبَادِهِ الۡـكُفۡرَ‌ ۚ وَاِنۡ تَشۡكُرُوۡا يَرۡضَهُ لَـكُمۡ‌ ؕ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰى‌ ؕ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمۡ مَّرۡجِعُكُمۡ فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‌ ؕ اِنَّهٗ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ‏ ﴿7﴾
اگر تم ناشکری کرو تو ( یاد رکھو کہ ) کہ اللہ تعالٰی تم ( سب سے ) بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند کرے گا ۔ اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا پھر تم سب کا لوٹنا تمہارے رب ہی کی طرف ہے ۔ تمہیں وہ بتلا دے گا جو تم کرتے تھے ۔ یقیناً وہ دلوں تک کی باتوں کا واقف ہے ۔
ان تكفروا فان الله غني عنكم و لا يرضى لعباده الكفر و ان تشكروا يرضه لكم و لا تزر وازرة وزر اخرى ثم الى ربكم مرجعكم فينبكم بما كنتم تعملون انه عليم بذات الصدور
If you disbelieve - indeed, Allah is Free from need of you. And He does not approve for His servants disbelief. And if you are grateful, He approves it for you; and no bearer of burdens will bear the burden of another. Then to your Lord is your return, and He will inform you about what you used to do. Indeed, He is Knowing of that within the breasts.
Agar tum na-shukri kero to ( yaad rakho kay ) Allah Taalaa tum ( sab say ) be-niyaz hai aur woh apnay bando ki na-shukri say khush nahi aur agar tum shukar kero to woh issay tumharay liye pasand keray ga aur koi kissi ka bojh nahi uthata phit tum sab ka lotna tumharay rab hi ki taraf hai. Tumhen woh batla dey ga jo tum kertay thay. Yaqeenan woh dilon tak ki baaton ka waqif hai.
اگر تم کفر اختیار کرو گے تو یقین رکھو کہ اللہ تم سے بے نیاز ہے ، اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا ، اور اگر تم شکر کرو گے تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرے گا ، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ، پھر تم سب کو اپنے پروردگار ہی کے پاس لوٹ کر جانا ہے ، اس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کچھ کیا کرتے تھے ۔ یقینا وہ دلوں کی باتیں بھی خوب جانتا ہے ۔
اگر تم ناشکری کرو تو بیشک اللہ بےنیاز ہے تم سے ( ف۲۱ ) اور اپنے بندوں کی ناشکری اسے پسند نہیں ، اور اگر شکر کرو تو اسے تمہارے لیے پسند فرماتا ہے ( ف۲۲ ) اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی ( ف۲۳ ) پھر تمہیں اپنے رب ہی کی طرف پھرنا ہے ( ف۲٤ ) تو وہ تمہیں بتادے گا جو تم کرتے تھے ( ف۲۵ ) بیشک وہ دلوں کی بات جانتا ہے ، (
اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے 19 ، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا 20 ، اور اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے 21 ۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا 22 ۔ آخرکار تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے ، پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ، وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے ۔
اگر تم کفر کرو تو بے شک اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے کفر ( و ناشکری ) پسند نہیں کرتا ، اور اگر تم شکرگزاری کرو ( تو ) اسے تمہارے لئے پسند فرماتا ہے ، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ، پھر تمہیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں اُن کاموں سے خبردار کر دے گا جو تم کرتے رہے تھے ، بے شک وہ سینوں کی ( پوشیدہ ) باتوں کو ( بھی ) خوب جاننے والا ہے
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :19 یعنی تمہارے کفر سے اس کی خدائی ذرا برابر بھی کمی نہیں آسکتی ۔ تم مانو گے تب بھی وہ خدا ہے ، اور نہ مانو گے تب بھی وہ خدا ہے اور رہے گا ۔ اس کی فرمانروائی اپنے زور پر چل رہی ہے ، تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا ۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا عبادی لو ان اولکم و اٰخرکم و انسکم و جنکم کانوا علیٰ افجر قلب رجل منکم ما نقص من ملکی شیئاً ۔ اے میرے بندو ، اگر تم سب کے سب اگلے اور پچھلے انسان اور جن اپنے میں سے کسی فاجر سے فاجر شخص کے دل کی طرح ہو جاؤ تب بھی میری بادشاہی میں کچھ بھی کمی نہ ہو گی ۔ ( مسلم ) سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :20 یعنی وہ اپنے کسی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ خود بندوں کے مفاد کی خاطر یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کفر کریں ، کیونکہ کفر خود انہی کے لیے نقصان دہ ہے ۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چیز ہے اور رضا دوسری چیز ۔ دنیا میں کوئی کام بھی اللہ کی مشیت کے خلاف نہیں ہو سکتا ، مگر اس کی رضا کے خلاف بہت سے کام ہو سکتے ہیں اور رات دن ہوتے رہتے ہیں ۔ مثلاً دنیا میں جباروں اور ظالموں کا حکمراں ہونا ، چوروں اور ڈاکوؤں کا پایا جانا ، قاتلوں اور زانیوں کا موجود ہونا اسی لیے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بنائے ہوئے نظام قدرت میں ان برائیوں کے ظہور اور ان اشرار کے وجود کی گنجائش رکھی ہے ۔ پھر ان کو بدی کے ارتکاب کے مواقع بھی دیتا ہے اور اسی طرح دیتا ہے جس طرح نیکوں کو نیکی کے موقع دیتا ہے ۔ اگر وہ سرے سے ان کاموں کی گنجائش ہی نہ رکھتا اور ان کے کرنے والوں کو مواقع ہی نہ دیتا تو دنیا میں کبھی کوئی برائی ظاہر نہ ہوتی ۔ یہ سب کچھ بر بنائے مشیت ہے ۔ لیکن مشیت کے تحت کسی فعل کا صدور یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ کی رضا بھی اس کو حاصل ہے ۔ مثال کے طور پر اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص اگر حرام خوری ہی کے ذریعہ سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اسی ذریعہ سے اس کو رزق دے دیتا ہے ۔ یہ ہے اس کی مشیت ۔ مگر مشیت کے تحت چور یا ڈاکو یا رشوت خوار کو رزق دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چوری ، ڈاکے اور رشوت کو اللہ پسند بھی کرتا ہے ۔ یہی بات اللہ تعالیٰ یہاں فرما رہا ہے کہ تم کفر کرنا چاہو تو کرو ، ہم تمہیں زبردستی اس سے روک کر مومن نہیں بنائیں گے ۔ مگر ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ تم بندے ہو کر اپنے خالق و پروردگار سے کفر کرو ، کیونکہ یہ تمہارے ہی لیے نقصان دہ ہے ، ہماری خدائی کا اس سے کچھ بھی نہیں بگڑتا ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :21 کفر کے مقابلے میں یہاں ایمان کے بجائے شکر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اس سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ کفر در حقیقت احسان فراموشی و نمک حرامی ہے ، اور ایمان فی الحقیقت شکر گزاری کا لازمی تقاضا ہے ۔ جس شخص میں اللہ جلّ شانہ کے احسانات کا کچھ بھی احساس ہو وہ ایمان کے سوا کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کر سکتا ۔ اس لیے شکر اور ایمان ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ جہاں شکر ہو گا وہاں ایمان ضرور ہو گا ۔ اور اس کے برعکس جہاں کفر ہو گا وہاں شکر کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، کیونکہ کفر کے ساتھ شکر کے معنی نہیں ہیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :22 مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے ۔ کوئی شخص اگر دوسروں کو راضی رکھنے کے لیے یا ان کی ناراضی سے بچنے کی خاطر کفر اختیار کرے گا تو وہ دوسرے لوگ اس کے کفر کا وبال اپنے اوپر نہیں اٹھا لیں گے بلکہ اسے آپ ہی اپنا وبال بھگتنے کے لیے چھوڑ دیں گے ۔ لہٰذا جس پر بھی کفر کا غلط اور ایمان کا صحیح ہونا واضح ہو جائے اس کو چاہیے کہ غلط رویہ چھوڑ کر صحیح رویہ اختیار کر لے اور اپنے خاندان یا برادری یا قوم کے ساتھ لگ کر اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق نہ بنائے ۔
فرماتا ہے کہ ساری مخلوق اللہ کی محتاج ہے اور اللہ سب سے بےنیاز ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرمان قرآن میں منقول ہے کہ اگر تم اور روئے زمین کے سب جاندار اللہ سے کفر کرو تو اللہ کا کوئی نقصان نہیں وہ ساری مخلوق سے بےپرواہ اور پوری تعریفوں والا ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ اے میرے بندو تمہارے سب اول و آخر انسان و جن مل ملا کر بدترین شخص کا سا دل بنا لو تو میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں آئے گی ہاں اللہ تمہاری ناشکری سے خوش نہیں نہ وہ اس کا تمہیں حکم دیتا ہے اور اگر تم اس کی شکر گزاری کرو گے تو وہ اس پر تم سے رضامند ہو جائے گا اور تمہیں اپنی اور نعمتیں عطا فرمائے گا ۔ ہر شخص وہی پائے گا جو اس نے کیا ہو ایک کے بدلے دوسرا پکڑا نہ جائے گا اللہ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔ انسان کو دیکھو کہ اپنی حاجت کے وقت تو بہت ہی عاجزی انکساری سے اللہ کو پکارتا ہے اور اس سے فریاد کرتا رہتا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا 67؀ ) 17- الإسراء:67 ) ، یعنی جب دریا اور سمندر میں ہوتے ہیں اور وہاں کوئی آفت آتی دیکھتے ہیں تو جن جن کو اللہ کے سوا پکارتے تھے سب کو بھول جاتے ہیں اور خالص اللہ کو پکارنے لگتے ہیں لیکن نجات پاتے ہی منہ پھیر لیتے ہیں انسان ہے ہی ناشکرا ۔ پس فرماتا ہے کہ جہاں دکھ درد ٹل گیا پھر تو ایسا ہو جاتا ہے گویا مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا اس دعا اور گریہ و زاری کو بالکل فراموش کر جاتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِيْبًا اِلَيْهِ Ď۝ ) 39- الزمر:8 ) ، یعنی تکلیف کے وقت تو انسان ہمیں اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہر وقت بڑی حضور قلبی سے پکارتارہتا ہے لیکن اس تکلیف کے ہٹتے ہی وہ بھی ہم سے ہٹ جاتا ہے گویا اس نے دکھ درد کے وقت ہمیں پکارا ہی نہ تھا ۔ بلکہ عافیت کے وقت اللہ کے ساتھ شریک کرنے لگتا ہے ۔ پس اللہ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ اپنے کفر سے گو کچھ یونہی سا فائدہ اٹھا لیں ۔ اس میں ڈانٹ ہے اور سخت دھمکی ہے جیسے فرمایا کہدیجیے کہ فائدہ حاصل کر لو آخری جگہ تو تمہاری جہنم ہی ہے اور فرمان ہے ہم انہیں کچھ فائدہ دیں گے پھر سخت عذابوں کی طرف بےبس کر دیں گے ۔