Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَاِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِيۡبًا اِلَيۡهِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَهٗ نِعۡمَةً مِّنۡهُ نَسِىَ مَا كَانَ يَدۡعُوۡۤا اِلَيۡهِ مِنۡ قَبۡلُ وَجَعَلَ لِلّٰهِ اَنۡدَادًا لِّيُـضِلَّ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ‌ ؕ قُلۡ تَمَتَّعۡ بِكُفۡرِكَ قَلِيۡلًا ‌ۖ  اِنَّكَ مِنۡ اَصۡحٰبِ النَّارِ‏ ﴿8﴾
اور انسان کو جب کبھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خوب رجوع ہو کر اپنے رب کو پکارتا ہے ، پھر جب اللہ تعالٰی اسے اپنے پاس سے نعمت عطا فرما دیتا ہے تو وہ اس سے پہلے جو دعا کرتا تھا اسے ( بالکل بھول جاتا ہے اور اللہ تعالٰی کے شریک مقرر کرنے لگتا ہے جس سے ( اوروں کو بھی ) اس کی راہ سے بہکائے ، آپ کہہ دیجئے! کہ اپنے کفر کا فائدہ کچھ دن اور اٹھالو ، ( آخر ) تو دوزخیوں میں ہونے والا ہے ۔
و اذا مس الانسان ضر دعا ربه منيبا اليه ثم اذا خوله نعمة منه نسي ما كان يدعوا اليه من قبل و جعل لله اندادا ليضل عن سبيله قل تمتع بكفرك قليلا انك من اصحب النار
And when adversity touches man, he calls upon his Lord, turning to Him [alone]; then when He bestows on him a favor from Himself, he forgets Him whom he called upon before, and he attributes to Allah equals to mislead [people] from His way. Say, "Enjoy your disbelief for a little; indeed, you are of the companions of the Fire."
Aur insan ko jab kabhi koi takleef phonchti hai to woh khoob rujoo hoker apnay rab ko pukarta hai phir jab Allah Taalaa ussay apnay pass say nemat ata farma deta hai to woh iss say pehlay jo dua kerta tha ( ussay ) bhool jata hai aur Allah Taalaa kay shareek muqarrar kerney lagta hai jiss say ( auron ko bhi ) uss ki raah say behkaye aap keh dijiye! Kay apnay kufur ka faeedah kuch din aur utha lo ( aakhir ) tu dozakhiyon mein honey wala hai.
اور جب انسان کو کوئی تکلیف چھو جاتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کو اسی سے لو لگا کر پکارتا ہے ، پھر جب وہ انسان کو اپنی طرف سے کوئی نعمت بخش دیتا ہے تو وہ اس ( تکلیف ) کو بھول جاتا ہے جس کے لیے پہلے اللہ کو پکار رہا تھا ، اور اللہ کے لیے شریک گھڑ لیتا ہے ، جس کے نتیجے میں دوسروں کو بھی اللہ کے راستے سے بھٹکاتا ہے ۔ کہہ دو کہ : کچھ دن اپنے کفر کے مزے اڑالے ، یقینا تو دوزخ والوں میں شامل ہے ۔
اور جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے ( ف۲٦ ) اپنے رب کو پکارتا ہے اسی طرف جھکا ہوا ( ف۲۷ ) پھر جب اللہ نے اسے اپنے پاس سے کوئی نعمت دی تو بھول جاتا ہے جس لیے پہلے پکارا تھا ( ف۲۸ ) اور اللہ کے برابر والے ٹھہرانے لگتا ہے ( ف۲۹ ) تاکہ اس کی راہ سے بہکا دے تم فرماؤ ( ف۳۰ ) تھوڑے دن اپنے کفر کے ساتھ برت لے ( ف۳۱ ) بیشک تو دوزخیوں میں ہے ،
انسان پر جب کوئی آفت آتی ہے 23 تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتا ہے 24 ۔ پھر جب اس کا رب اسے اپنی نعمت سے نواز دیتا ہے تو وہ اس مصیبت کو بھول جاتا ہے جس پر وہ پہلے پکار رہا تھا 25 ۔ اور دوسروں کو اللہ کا ہمسر ٹھیراتا ہے 26 تاکہ اس کی راہ سے گمراہ کرے 27 ۔ ( اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ) اس سے کہو کہ تھوڑے دن اپنے کفر سے لطف اٹھا لے ، یقینا تو دوزخ میں جانے والا ہے ۔
اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتا ہے ، پھر جب ( اللہ ) اُسے اپنی جانب سے کوئی نعمت بخش دیتا ہے تو وہ اُس ( تکلیف ) کو بھول جاتا ہے جس کے لئے وہ پہلے دعا کیا کرتا تھا اور ( پھر ) اللہ کے لئے ( بتوں کو ) شریک ٹھہرانے لگتا ہے تاکہ ( دوسرے لوگوں کو بھی ) اس کی راہ سے بھٹکا دے ، فرما دیجئے: ( اے کافر! ) تو اپنے کُفر کے ساتھ تھوڑا سا ( ظاہری ) فائدہ اٹھا لے ، تو بے شک دوزخیوں میں سے ہے
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :23 انسان سے مراد یہاں وہ کافر انسان ہے جس نے ناشکری کی روش اختیار کر رکھی ہو ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :24 یعنی اس وقت اسے وہ دوسرے معبود یاد نہیں آتے جنہیں وہ اپنے اچھے حال میں پکارا کرتا تھا ، بلکہ ان سب سے مایوس ہو کر وہ صرف اللہ رب العالمین کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ یہ گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں میں دوسرے معبودوں کے بے اختیار ہونے کا احساس رکھتا ہے اور اس حقیقت کا شعور بھی اس کے ذہن میں کہیں نہ کہیں دبا چھپا موجود ہے کہ اصل اختیارات کا مالک اللہ ہی ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :25 یعنی وہ برا وقت پھر اسے یاد نہیں رہتا جس میں وہ تمام دوسرے معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہ لاشریک سے دعائیں مانگ رہا تھا ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :26 یعنی پھر دوسروں کی بندگی کرنے لگتا ہے ۔ انہی کی اطاعت کرتا ہے ، انہی سے دعائیں مانگتا ہے ، اور انہی کے آگے نذر و نیاز پیش کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :27 یعنی خود گمراہ ہونے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو بھی یہ کہہ کہہ کر گمراہ کرتا ہے کہ جو آفت مجھ پر آئی تھی وہ فلان حضرت یا فلاں دیوی یا دیوتا کے صدقے میں ٹل گئی ۔ اس سے دوسرے بہت سے لوگ بھی ان معبودان غیر اللہ کے معتقد بن جاتے ہیں اور ہر جاہل اپنے اسی طرح کے تجربات بیان کر کر کے عوام کی اس گمراہی کو بڑھاتا چلا جاتا ہے ۔