Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَمَّنۡ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّيۡلِ سَاجِدًا وَّقَآٮِٕمًا يَّحۡذَرُ الۡاٰخِرَةَ وَيَرۡجُوۡا رَحۡمَةَ رَبِّهٖ‌ؕ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الَّذِيۡنَ يَعۡلَمُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‌ؕ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ‏ ﴿9﴾
بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں ( عبادت میں ) گزار تا ہو ، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو ( اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں ) بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں ۔ ( اپنے رب کی طرف سے )
امن هو قانت اناء اليل ساجدا و قاىما يحذر الاخرة و يرجوا رحمة ربه قل هل يستوي الذين يعلمون و الذين لا يعلمون انما يتذكر اولوا الالباب
Is one who is devoutly obedient during periods of the night, prostrating and standing [in prayer], fearing the Hereafter and hoping for the mercy of his Lord, [like one who does not]? Say, "Are those who know equal to those who do not know?" Only they will remember [who are] people of understanding.
Bhala jo shaks raaton kay auqaat sajjday aur qayaam ki halat mein ( ibadat mein ) guzaarta ho aakhirat say darta ho aur apnay rab ki rehmat ki umeed rakhta ho ( aur jo iss kay bar-aks ho barbar ho saktay hain ) batao to ilm walay aur be-ilm kiya barabar kay hain? Yaqeenan naseehat wohi hasil kertay hain jo aqalmand hon. ( apnay rab ki taraf say ) .
بھلا ( کیا ایسا شخص اس کے برابر ہوسکتا ہے ) جو رات کی گھڑیوں میں عبادت کرتا ہے ، کبھی سجدے میں ، کبھی قیام میں ، آخرت سے ڈرتا ہے ، اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے؟ کہو کہ : کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے سب برابر ہیں؟ ( ٥ ) ( مگر ) نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں ۔
کیا وہ جسے فرمانبرداری میں رات کی گھڑیاں گزریں سجود میں اور قیام میں ( ف۳۲ ) آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت کی آس لگائے ( ف۳۳ ) کیا وہ نافرمانوں جیسا ہو جائے گا تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان ، نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں ،
۔ ( کیا اس شخص کی روش بہتر ہے یا اس شخص کی ) جو مطیع فرمان ہے ، رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے ، آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت سے امید لگاتا ہے ؟ ان سے پوچھو ، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں ؟ 28 نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں ۔ ع
بھلا ( یہ مشرک بہتر ہے یا ) وہ ( مومن ) جو رات کی گھڑیوں میں سجود اور قیام کی حالت میں عبادت کرنے والا ہے ، آخرت سے ڈرتا رہتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے ، فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے ( سب ) برابر ہوسکتے ہیں؟ بس نصیحت تو عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :28 واضح رہے کہ یہاں مقابلہ دو قسم کے انسانوں کے درمیان کیا جا رہا ہے ۔ ایک وہ جو کوئی سخت وقت آ پڑنے پر تو اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور عام حالات میں غیر اللہ کی بندگی کرتے رہتے ہیں ۔ دوسرے وہ جنہوں نے اللہ کی اطاعت اور اس کی بندگی و پرستش کو اپنا مستقل طریقہ بنالیا ہے اور راتوں کی تنہائی میں ان کا عبادت کرنا ان کے مخلص ہونے کی دلیل ہے ۔ ان میں سے پہلے گروہ والوں کو اللہ تعالیٰ بے علم قرار دیتا ہے ، خود انہوں نے بڑے بڑے کتب خانے ہی کیوں نہ چاٹ رکھے ہوں ۔ اور دوسرے گروہ والوں کو وہ عالم قرار دیتا ہے ، خواہ وہ بالکل ہی ان پڑھ کیوں نہ ہوں ۔ کیونکہ اصل چیز حقیقت کا علم اور اس کے مطابق عمل ہے ، اور اسی پر انسان کی فلاح کا انحصار ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دونوں آخر یکساں کیسے ہو سکتے ہیں ؟ کیسے ممکن ہے کہ دنیا میں یہ مل کر ایک طریقے پر چلیں ، اور آخرت میں دونوں ایک ہی طرح کے انجام سے دو چار ہوں ؟
مشرک اور موحد برابر نہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جس کی حالت یہ ہو وہ مشرک کے برابر نہیں ۔ جیسے فرمان ہے ( لَيْسُوْا سَوَاۗءً ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ ١١٣؁ ) 3-آل عمران:113 ) ، یعنی سب کے سب برابر کے نہیں ۔ اہل کتاب میں وہ جماعت بھی ہے جو راتوں کے وقت قیام کی حالت میں آیات الہیہ کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدوں میں پڑے رہتے ہیں ۔ قنوت سے مراد یہاں پر نماز کا خشوع خضوع ہے ۔ صرف قیام مراد نہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے قانت کے معنی مطیع اور فرمانبردار کے ہیں ۔ ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے کہ اناء الیل سے مراد آدھی رات سے ہے ۔ منصور فرماتے ہیں مراد مغرب عشاء کے درمیان کا وقت ہے ۔ قتادہ رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں ۔ اول درمیانہ اور آخری شب مراد ہے ۔ یہ عابد لوگ ایک طرف لرزاں و ترساں ہیں دوسری جانب امیدوار اور طمع کناں ہیں ۔ نیک لوگوں پر زندگی میں تو خوف اللہ امید پر غالب رہتا ہے موت کے وقت خوف پر امید کا غلبہ ہو جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس اس کے انتقال کے وقت جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تو اپنے آپ کو کس حالت میں پاتا ہے؟ اس نے کہا خوف و امید کی حالت میں ۔ آپ نے فرمایا جس شخص کے دل میں ایسے وقت یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں اس کی امید اللہ تعالیٰ پوری کرتا ہے اور اس کے خوف سے اسے نجات عطا فرماتا ہے ۔ ترمذی ابن ماجہ وغیرہ ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا یہ وصف صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں تھا ۔ فی الواقع آپ رات کے وقت بکثرت تہجد پڑھتے رہتے تھے اور اس میں قرآن کریم کی لمبی قرأت کیا کرتے تھے یہاں تک کہ کبھی کبھی ایک ہی رکعت میں قرآن ختم کر دیتے تھے ۔ جیسا کہ ابو عبید سے مروی ہے ۔ شاعر کہتا ہے ۔ صبح کے وقت ان کے منہ نورانی چمک لئے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے تسبیح و تلاوت قرآن میں رات گذاری ہے ۔ نسائی وغیرہ میں حدیث ہے کہ جس نے ایک رات سو آیتیں پڑھ لیں اس کے نامہ اعمال میں ساری رات کی قنوت لکھی جاتی ہے ( مسند وغیرہ ) پس ایسے لوگ اور مشرک جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں کسی طرح ایک مرتبے کے نہیں ہو سکتے ، عالم اور بےعلم کا درجہ ایک نہیں ہو سکتا ۔ ہر عقل مند پر ان کا فرق ظاہر ہے ۔