Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
فَاعۡبُدُوۡا مَا شِئۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖ‌ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡخٰسِرِيۡنَ الَّذِيۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡـفُسَهُمۡ وَ اَهۡلِيۡهِمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ‌ ؕ اَلَا ذٰ لِكَ هُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿15﴾
تم اس کے سوا جس کی چاہو عبادت کرتے رہو کہہ دیجئے! کہ حقیقی زیاں کار وہ ہیں جو اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو قیامت کے دن نقصان میں ڈال دیں گے ، یاد رکھو کہ کھلم کھلا نقصان یہی ہے ۔
فاعبدوا ما شتم من دونه قل ان الخسرين الذين خسروا انفسهم و اهليهم يوم القيمة الا ذلك هو الخسران المبين
So worship what you will besides Him." Say, "Indeed, the losers are the ones who will lose themselves and their families on the Day of Resurrection. Unquestionably, that is the manifest loss."
Tum uss kay siwa jiss ki chahao ibadat kertay raho keh dijiyey! Kay haqeeqi ziyan kaar woh hain jo apnay aap ko aur apnay ehal ko qayamat kay din nuksan mein daal den gay yad rekho kay khullam khulla nuksan yehi hai.
اب تم اسے چھوڑ کر جس کی چاہو ، عبادت کرو ۔ ( ٨ ) کہہ دو کہ : گھاٹے کا سودا کرنے والے تو وہ ہیں جو قیامت کے دن اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں سب کو ہرا بیٹھیں گے ۔ یاد رکھو کہ کھلا ہوا گھاٹا یہی ہے ۔
تو تم اس کے سوا جسے چاہو پوجو ( ف٤۱ ) تم فرماؤ پوری ہار انہیں جو اپنی جان اور اپنے گھر والے قیامت کے دن ہار بیٹھے ( ف٤۲ ) ہاں ہاں یہی کھلی ہار ہے ،
تم اس کے سوا جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو ۔ کہو ، اصل دیوالیے تو وہی ہیں جنہوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو گھاٹے میں ڈال دیا ۔ خوب سن رکھو ، یہی کھلا دیوالیہ ہے 34 ۔
سو تم اللہ کے سوا جس کی چاہو پوجا کرو ، فرما دیجئے: بے شک نقصان اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنی جانوں کو اور اپنے گھر والوں کو خسارہ میں ڈالا ۔ یاد رکھو یہی کھلا نقصان ہے
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :34 دیوالہ عُرفِ عام میں اس چیز کو کہتے ہیں کہ کاروبار میں آدمی کا لگایا ہوا سارا سرمایہ ڈوب جائے اور بازار میں اس پر دوسروں کے مطالبے اتنے چڑھ جائیں کہ ا پنا سب کچھ دے کر بھی وہ ان سے عہدہ برآ نہ ہو سکے ۔ یہی استعارہ کفار و مشرکین کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں استعمال کیا ہے ۔ انسان کو زندگی ، عمر ، عقل ، جسم ، قوتیں اور قابلیتیں ، ذرائع اور مواقع ، جتنی چیزیں بھی دنیا میں حاصل ہیں ، ان سب کا مجموعہ دراصل وہ سرمایہ ہے جسے وہ حیات دنیا کے کاروبار میں لگاتا ہے ۔ یہ سارا سرمایہ اگر کسی شخص نے اس مفروضے پر لگا دیا کہ کوئی خدا نہیں ہے ۔ یا بہت سے خدا ہیں جن کا میں بندہ ہوں ، اور کسی کو مجھے حساب نہیں دینا ہے ، یا محاسبے کے وقت کوئی دوسرا مجھے آ کر بچالے گا ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے گھاٹے کا سودا کیا اور اپنا سب کچھ ڈبو دیا ۔ یہ ہے پہلا خسران ۔ دوسرا خسران یہ ہے کہ اس غلط مفروضے پر اس نے جتنے کام بھی کیے ان سب میں وہ اپنے نفس سے لے کر دنیا کے بہت سے انسانوں اور آئندہ نسلوں اور اللہ کی دوسری بہت سی مخلوق پر عمر بھر ظلم کرتا رہا ۔ اس لیے اس پر بے شمار مطالبات چڑھ گئے ، مگر اس کے پلے کچھ نہیں ہے جس سے وہ ان مطالبات کا بھگتان بھگت سکے ۔ اس پر مزید خسران یہ ہے کہ وہ خود ہی نہیں ڈوبا بلکہ اپنے بال بچوں اور عزیز و اقارب اور دوستوں اور ہم قوموں کو بھی اپنی غلط تعلیم و تربیت اور غلط مثال سے لے ڈوبا ۔ یہی تین خسارے ہیں جن کے مجموعے کو اللہ تعالیٰ خسران مبین قرار دے رہا ہے ۔