Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَفَمَنۡ شَرَحَ اللّٰهُ صَدۡرَهٗ لِلۡاِسۡلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوۡرٍ مِّنۡ رَّبِّهٖ‌ؕ فَوَيۡلٌ لِّلۡقٰسِيَةِ قُلُوۡبُهُمۡ مِّنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ‌ؕ اُولٰٓٮِٕكَ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿22﴾
کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالٰی نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وہ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک نور پر ہے اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل یاد الٰہی سے ( اثر نہیں لیتے بلکہ ) سخت ہوگئے ہیں ۔ یہ لوگ صریح گمراہی میں ( مبتلا ) ہیں ۔
افمن شرح الله صدره للاسلام فهو على نور من ربه فويل للقسية قلوبهم من ذكر الله اولىك في ضلل مبين
So is one whose breast Allah has expanded to [accept] Islam and he is upon a light from his Lord [like one whose heart rejects it]? Then woe to those whose hearts are hardened against the remembrance of Allah . Those are in manifest error.
Kiya woh shaks jiss ka seena Allah Taalaa ney islam kay liye khol diya hai pus woh apnay perwerdigar ki taraf say aik noor per hai aur halaki hai unn per jin kay dil yaad-e-elahi say ( asar nahi letay bulkay ) sakht hogaye hain. Yeh log sareeh gumrahi mein ( mubtila ) hain.
بھلا کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے ، جس کے نتیجے میں وہ اپنے پروردگار کی عطا کی ہوئی رشنی میں آچکا ہے ، ( سنگ دلوں کے برابر ہوسکتا ہے ؟ ) ہاں ، بربادی ان کی ہے جن کے دل اللہ کے ذکر سے سخت ہوچکے ہیں ۔ یہ لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ۔
تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ( ف۵٤ ) تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے ( ف۵۵ ) اس جیسا ہوجائے گا جو سنگدل ہے تو خرابی ہے ان کی جن کے دل یاد خدا کی طرف سے سخت ہوگئے ہیں ( ف۵٦ ) وہ کھلی گمراہی میں ہیں ،
اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا 40 اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے 41 ( اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے کوئی سبق نہ لیا ؟ ) ۔ تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے 42 ۔ وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ۔
بھلا اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ( فائز ) ہوجاتا ہے ، ( اس کے برعکس ) پس اُن لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر ( کے فیض ) سے ( محروم ہو کر ) سخت ہوگئے ، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :40 یعنی جسے اللہ نے یہ توفیق بخشی کہ ان حقائق سے سبق لے اور اسلام کے حق ہونے پر مطمئن ہو جائے ۔ کسی بات پر آدمی کا شرح صدر ہو جانا یا سینہ کھل جانا دراصل اس کیفیت کا نام ہے کہ آدمی دل میں اس بات کے متعلق کوئی خلجان یا تذبذب یا شک و شبہ باقی نہ رہے ، اور اسے کسی خطرے کا احساس اور کسی نقصان کا اندیشہ بھی اس بات کو قبول اور اختیار کرنے میں مانع نہ ہو ، بلکہ پورے اطمینان کے ساتھ وہ یہ فیصلہ کر لے کہ یہ چیز حق ہے لہٰذا خواہ کچھ ہو جائے مجھے اسی پر چلنا ہے ۔ اس طرح کا فیصلہ کر کے جب آدمی اسلام کی راہ کو اختیار کر لیتا ہے تو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو حکم بھی اسے ملتا ہے وہ اسے بکراہت نہیں بلکہ برضا و رغبت مانتا ہے ۔ کتاب و سنت میں جو عقائد و افکار اور جو اصول و قواعد بھی اس کے سامنے آتے ہیں وہ انہیں اس طرح قبول کرتا ہے کہ گویا یہی اس کے دل کی آواز ہے ۔ کسی ناجائز فائدے کو چھوڑنے پر اسے کوئی پچھتاوا لاحق نہیں ہوتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے وہ سرے سے کوئی فائدہ تھا ہی نہیں ، الٹا ایک نقصان تھا جس سے بفضل خدا میں بچ گیا ۔ اسی طرح کوئی نقصان بھی اگر راستی پر قائم رہنے کی صورت میں اسے پہنچے تو وہ اس پر افسوس نہیں کرتا بلکہ ٹھنڈے دل سے اسے برداشت کرتا ہے اور اللہ کی راہ سے منہ موڑنے کی بہ نسبت وہ نقصان اسے ہلکا نظر آتا ہے ۔ یہی حال اس کا خطرات پیش آنے پر بھی ہوتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے کوئی دوسرا راستہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ اس خطرہ سے بچنے کے لیے ادھر نکل جاؤں ۔ اللہ کا سیدھا راستہ ایک ہی ہے جس پر مجھے بہرحال چلنا ہے ۔ خطرہ آتا ہے تو آتا رہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :41 یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی صورت میں ایک نور علم اسے مل گیا ہے جس کے اجالے میں وہ ہر ہر قدم پر صاف دیکھتا جاتا ہے کہ زندگی کی بے شمار پگ ڈنڈیوں کے درمیان حق کا سیدھا راستہ کونسا ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :42 شرح صدر کے مقابلے میں انسانی قلب کی دو ہی کیفیتیں ہو سکتی ہیں ۔ ایک ضیق صدر ( سینہ تنگ ہو جانے اور دل بھچ جانے ) کی کیفیت جس میں حق کے لیے نفوذ یا سرایت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ اس دوسری کیفیت کے متعلق فرماتا ہے کہ جو شخص اس حد تک پہنچ جائے اس کے لیے پھر کامل تباہی ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص ، خواہ دل کی تنگی ہی کے ساتھ سہی ، ایک مرتبہ قبول حق کے لیے کسی طرح تیار ہو جائے تو اس کے لیے بچ نکلنے کا کچھ نہ کچھ امکان ہوتا ہے ۔ یہ دوسرا مضمون آیت کے فحویٰ سے خود بخود نکلتا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی صراحت نہیں فرمائی ہے ، کیونکہ آیت کا اصل مقصود ان لوگوں کو متنبہ کرنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں ضد اور ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات مان کر نہیں دینی ہے ۔ اس پر انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ تم تو اپنی اس ہیکڑی کو بڑی قابل چیز سمجھ رہے ہو ، مگر فی الحقیقت ایک انسان کی اس سے بڑھ کر کوئی نالائقی اور بد نصیبی نہیں ہو سکتی کہ اللہ کا ذکر اور اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت سن کر وہ نرم پڑنے کے بجائے اور زیادہ سخت ہو جائے ۔