Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِيۡثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِىَ ‌ۖ  تَقۡشَعِرُّ مِنۡهُ جُلُوۡدُ الَّذِيۡنَ يَخۡشَوۡنَ رَبَّهُمۡ‌ۚ ثُمَّ تَلِيۡنُ جُلُوۡدُهُمۡ وَقُلُوۡبُهُمۡ اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ‌ ؕ ذٰ لِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهۡدِىۡ بِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَمَنۡ يُّضۡلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنۡ هَادٍ‏ ﴿23﴾
اللہ تعالٰی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالٰی کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں یہ ہے اللہ تعالٰی کہ ہدایت جس کے ذریعہ جسے چاہے راہ راست پر لگا دیتا ہے اور جسے اللہ تعالٰی ہی راہ بھلا دے اس کا ہادی کوئی نہیں ۔
الله نزل احسن الحديث كتبا متشابها مثاني تقشعر منه جلود الذين يخشون ربهم ثم تلين جلودهم و قلوبهم الى ذكر الله ذلك هدى الله يهدي به من يشاء و من يضلل الله فما له من هاد
Allah has sent down the best statement: a consistent Book wherein is reiteration. The skins shiver therefrom of those who fear their Lord; then their skins and their hearts relax at the remembrance of Allah . That is the guidance of Allah by which He guides whom He wills. And one whom Allah leaves astray - for him there is no guide.
Allah Taalaa ney behtareen kalam nazil farmaya hai jo aisi kitab hai kay aapas mein milti julti aur baar baar dohraee hui aayaton ki hai jiss say unn logon kay rongtay kharay hojatay hain jo apnay rab ka khof rakhtay hain aakhir mein unn kay jisam aur dil Allah Taalaa kay zikar ki taraf naram hojatay hain yeh hai Allah Taalaa ki hidayat jiss kay zariyey jissay chahaye raah-e-raast per laga deta hai. Aur jissay Allah Taalaa hi raah bhula dey uss ka koi hadi nahi.
اللہ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے ، ایک ایسی کتاب جس کے مضامین ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ، جس کی باتیں بار بار دہرائی گئی ہیں ۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں اپنے پروردگار کا رعب ہے ان کی کھالیں اس سے کانپ اٹھتی ہیں ، پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ذریعے وہ جس کو چاہتا ہے راہ راست پر لے آتا ہے ، اور جسے اللہ راستے سے بھٹکا دے ، اسے کوئی راستے پر لانے والا نہیں ۔
اللہ نے اتاری سب سے اچھی کتاب ( ف۵۷ ) کہ اول سے آخر تک ایک سی ہے ( ف۵۸ ) دوہرے بیان والی ( ف۵۹ ) اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ، پھر ان کی کھالیں اور دل نرم پڑتے ہیں یاد خدا کی طرف رغبت میں ( ف٦۰ ) یہ اللہ کی ہدایت ہے راہ دکھائے اس سے جسے چاہے ، اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں ،
اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے ، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزاء ہم رنگ ہیں 43 اور جس میں بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں ۔ اسے سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں ، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں ۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ راہ راست پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے ۔ اور جسے اللہ ہی ہدایت نہ دے اس کے لیے پھر کوئی ہادی نہیں ہے ۔
اللہ ہی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے ، جو ایک کتاب ہے جس کی باتیں ( نظم اور معانی میں ) ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں ( جس کی آیتیں ) بار بار دہرائی گئی ہیں ، جس سے اُن لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ، پھر اُن کی جلدیں اور دل نرم ہو جاتے ہیں ( اور رِقّت کے ساتھ ) اللہ کے ذکر کی طرف ( محو ہو جاتے ہیں ) ۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے ۔ اور اللہ جسے گمراہ کر دیتا ( یعنی گمراہ چھوڑ دیتا ) ہے تو اُس کے لئے کوئی ہادی نہیں ہوتا
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :43 یعنی ان میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں ہے ۔ پوری کتاب اول سے لے کر آخر تک ایک ہی مدعا ، ایک ہی عقیدہ اور ایک ہی نظام فکر و عمل پیش کرتی ہے ۔ اس کا ہر جز دوسرے جز کی اور ہر مضمون دوسرے مضمون کی تصدیق و تائید اور توضیح و تشریح کرتا ہے ۔ اور معنی و بیان دونوں کے لحاظ سے اس میں کامل یکسانی ( Consistency ) پائی جاتی ہے ۔
قرآن حکیم کی تاثیر ۔ اللہ تعالیٰ اپنی اس کتاب قرآن کریم کی تعریف میں فرماتا ہے کہ اس بہترین کتاب کو اس نے نازل فرمایا ہے جو سب کی سب متشابہ ہیں اور جس کی آیتیں مکرر ہیں تاکہ فہم سے قریب تر ہو جائے ۔ ایک آیت دوسری کے مشابہ اور ایک حرف دوسرے سے ملتا جلتا ۔ اس سورت کی آیتیں اس سورت سے اور اس کی اس سے ملی جلی ۔ ایک ایک ذکر کئی کئی جگہ اور پھر بے اختلاف بعض آیتیں ایک ہی بیان میں بعض میں جو مذکور ہے اس کی ضد کا ذکر بھی انہیں کے ساتھ ہے مثلاً مومنوں کے ذکر کے ساتھ ہی کافروں کا ذکر جنت کے ساتھ ہی دوزخ کا بیان وغیرہ ۔ دیکھئے ابرار کے ذکر کے ساتھ ہی فجار کا بیان ہے ۔ سجین کے ساتھ ہی علیین کا بیان ہے ۔ متقین کے ساتھ ہی طاعین کا بیان ہے ۔ ذکر جنت کے ساتھ ہی تذکرہ جہنم ہے ۔ یعنی معنی ہیں مثانی کے اور متشابہ ان آیتوں کو کہتے ہیں وہ تو یہ ہے اور ( ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ Ċ۝ ) 3-آل عمران:7 ) میں اور ہی معنی ہیں ۔ اس کی پاک اور بااثر آیتوں کا مومنوں کے دل پر نور پڑتا ہے وہ انہیں سنتے ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں سزاؤں اور دھمکیوں کو سن کر ان کا کلیجہ کپکپانے لگتا ہے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انتہائی عاجزی اور بہت ہی بڑی گریہ و زاری سے ان کے دل اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں اس کی رحمت و لطف پر نظریں ڈال کر امیدیں بندھ جاتی ہیں ۔ ان کا حال سیاہ دلوں سے بالکل جداگانہ ہے ۔ یہ رب کے کلام کو نیکیوں سے سنتے ہیں ۔ وہ گانے بجانے پر سر دھنستے ہیں ۔ یہ آیات قرآنی سے ایمان میں بڑھتے ہیں ۔ وہ انہیں سن کر اور کفر کے زینے پر چڑھتے ہیں یہ روتے ہوئے سجدوں میں گر پڑتے ہیں ۔ وہ مذاق اڑاتے ہوئے اکڑتے ہیں ۔ فرمان قرآن ہے ( اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ Ą۝ښ ) 8- الانفال:2 ) ، یعنی یاد الٰہی مومنوں کے دلوں کو دہلا دیتی ہے ، وہ ایمان و توکل میں بڑھ جاتے ہیں ، نماز و زکوٰۃ و خیرات کا خیال رکھتے ہیں ، سچے با ایمان یہی ہیں ، درجے ، مغفرت اور بہترین روزیاں یہی پائیں گے اور آیت میں ہے یعنی بھلے لوگ آیات قرآنیہ کو بہروں اندھوں کی طرح نہیں سنتے پڑھتے کہ ان کی طرف نہ تو صحیح توجہ ہو نہ ارادہ عمل ہو بلکہ یہ کان لگا کر سنتے ہیں دل لگا کر سمجھتے ہیں غور و فکر سے معانی اور مطلب تک رسائی حاصل کرتے ہیں ۔ اب توفیق ہاتھ آتی ہے سجدے میں گر پڑتے ہیں اور تعمیل کے لئے کمربستہ ہو جاتے ہیں ۔ یہ خود اپنی سمجھ سے کام کرنے والے ہوتے ہیں دوسروں کی دیکھا دیکھی جہالت کے پیچھے پڑے نہیں رہتے ۔ تیسرا وصف ان میں برخلاف دوسروں کے یہ ہے کہ قرآن کے سننے کے وقت با ادب رہتے ہیں ۔ حضور علیہ السلام کی تلاوت سن کر صحابہ کرام کے جسم و روح ذکر اللہ کی طرف جھک آتے تھے ان میں خشوع و خضوع پیدا ہو جاتا تھا لیکن یہ نہ تھا کہ چیخنے چلانے اور ہاہڑک کرنے لگیں اور اپنی صوفیت جتائیں بلکہ ثبات سکون ادب اور خشیت کے ساتھ کلام اللہ سنتے دل جمعی اور سکون حاصل کرتے اسی وجہ سے مستحق تعریف اور سزا وار توصیف ہوئے رضی اللہ عنہم ۔ عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت قتادہ فرماتے ہیں اولیاء اللہ کی صفت یہی ہے کہ قرآن سن کر ان کے دل موم ہو جائیں اور ذکر اللہ کی طرف وہ جھک جائیں ان کے دل ڈر جائیں ان کی آنکھیں آنسو بہائیں اور طبیعت میں سکون پیدا ہو جائے ۔ یہ نہیں کہ عقل جاتی رہے حالت طاری ہو جائے ۔ نیک و بد کا ہوش نہ رہے ۔ یہ بدعتیوں کے افعال ہیں کہ ہا ہو کرنے لگتے ہیں اور کودتے اچھلتے اور پکڑے پھاڑتے ہیں یہ شیطانی حرکت ہے ۔ ذکر اللہ سے مراد وعدہ اللہ بھی بیان کیا گیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے یہ ہیں صفتیں ان لوگوں کی جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے ۔ ان کے خلاف جنہیں پاؤ سمجھ لو کہ اللہ نے انہیں گمراہ کر دیا ہے اور یقین رکھو کہ رب جنہیں ہدایت دینا چاہئے انہیں کوئی راہ راست نہیں دکھا سکتا ۔