Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَ فَمَنۡ يَّتَّقِىۡ بِوَجۡهِهٖ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ‌ ؕ وَقِيۡلَ لِلظّٰلِمِيۡنَ ذُوۡقُوۡا مَا كُنۡـتُمۡ تَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿24﴾
بھلا جو شخص قیامت کے دن ان کے بدترین عذاب کی سپر ( ڈھال ) اپنے منہ کو بنائے گا ( ایسے ) ظالموں سے کہا جائے گا کہ اپنے کئے کا ( وبال ) چکھو ۔
افمن يتقي بوجهه سوء العذاب يوم القيمة و قيل للظلمين ذوقوا ما كنتم تكسبون
Then is he who will shield with his face the worst of the punishment on the Day of Resurrection [like one secure from it]? And it will be said to the wrongdoers, "Taste what you used to earn."
Bhala jo shaks qayamat kay din kay bad-tareen azab ki sapar ( dhaal ) apnay mun ko banaye ga. ( aisay ) zalimon say kaha jayega kay apnay kiyey ka ( wabal ) chakho.
بھلا ( اس شخص کا کیسا برا حال ہوگا ) جو قیامت کے دن اپنے چہرے ہی سے بدترین عذاب کو روکنا چاہے گا؟ ( ١٢ ) اور ظالموں سے کہا جائے گا کہ : چکھو مزہ اس کمائی کا جو تم نے کر رکھی تھی ۔
تو کیا وہ جو قیامت کے دن برے عذاب کی ڈھال نہ پائے گا اپنے چہرے کے سوا ( ف٦۱ ) نجات والے کی طرح ہوجائے گا ( ف٦۲ ) اور ظالموں سے فرمایا جائے گا اپنا کمایا چکھو ( ف٦۳ )
اب اس شخص کی بد حالی کا تم کیا اندازہ کر سکتے ہو جو قیامت کے روز عذاب کی سخت مار اپنے منہ پر لے گا ؟ 44 ایسے ظالموں سے تو کہہ دیا جائے گا کہ اب چکھو مزہ اس کمائی کا جو تم کرتے رہے تھے 45 ۔
بھلا وہ شخص جو قیامت کے دن ( آگ کے ) برے عذاب کو اپنے چہرے سے روک رہا ہوگا ( کیونکہ اس کے دونوں ہاتھ بندھے ہونگے ، اس کا کیا حال ہوگا؟ ) اور ایسے ظالموں سے کہا جائے گا: اُن بداعمالیوں کا مزہ چکھو جو تم انجام دیا کرتے تھے
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :44 کسی ضرب کو آدمی اپنے منہ پر اس وقت لیتا ہے جبکہ وہ بالکل عاجز و بے بس ہو ۔ ورنہ جب تک وہ مدافعت پر کچھ بھی قادر ہوتا ہے وہ اپنے جسم کے ہر حصے پر چوٹ کھاتا رہتا ہے مگر منہ پر مار نہیں پڑنے دیتا ۔ اس لیے یہاں اس شخص کی انتہائی بے بسی کی تصویر یہ کہہ کر کھینچ دی گئی ہے کہ وہ سخت مار اپنے منہ پر لے گا ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :45 اصل میں لفظ کسب استعمال ہوا ہے جس سے مراد قرآن مجید کی اصطلاح میں جزا و سزا کا وہ استحقاق ہے جو آدمی اپنے عمل کے نتیجے میں کماتا ہے ۔ نیک عمل کرنے والے کی اصل کمائی یہ ہے کہ وہ اللہ کے اجر کا مستحق بنتا ہے ۔ اور گمراہی و بد راہی اختیار کرنے والے کی کمائی وہ سزا ہے جو اسے آخرت میں ملنے والی ہے ۔
ایک وہ جسے اس ہنگامہ خیز دن میں امن و امان حاصل ہو اور ایک وہ جسے اپنے منہ پر عذاب کے تھپڑ کھانے پڑتے ہوں برابر ہو سکتے ہیں؟ جیسے فرمایا اوندھے منہ ، منہ کے بل چلنے والا اور راست قامت اپنے پیروں سیدھی راہ چلتے والا برابر نہیں ۔ ان کفار کو تو قیامت کے دن اوندھے منہ گھسیٹا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آگ کا مزہ چکھو ۔ ایک اور آیت میں ہے جہنم میں داخل کیا جانے والا بدنصیب اچھا یا امن و امان سے قیامت کا دن گذارنے والا اچھا ؟ یہاں اس آیت کا مطلب یہی ہے لیکن ایک قسم کا ذکر کر کے دوسری قسم کے بیان کو چھوڑ دیا کیونکہ اسی سے وہ بھی سمجھ لیا جاتا ہے یہ بات شعراء کے کلام میں برابر پائی جاتی ہے ۔ اگلے لوگوں نے بھی اللہ کی باتوں کو نہ مانا تھا اور رسولوں کو جھوٹا کہا تھا پھر دیکھو کہ ان پر کس طرح ان کی بےخبری میں مار پڑی؟ عذاب اللہ نے انہیں دنیا میں بھی ذلیل و خوار کیا اور آخرت کے سخت عذاب بھی ان کے لئے باقی ہیں ۔ پس تمہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ اشرف رسل کے ستانے اور نہ ماننے کی وجہ سے تم پر کہیں ان سے بھی بدتر عذاب برس نہ پڑیں ۔ تم اگر ذی علم ہو تو ان کے حالات اور تذکرے تمہاری نصیحت کے لئے کافی ہیں ۔