Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَلَقَدۡ ضَرَبۡنَا لِلنَّاسِ فِىۡ هٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمۡ يَتَذَكَّرُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿27﴾
اور یقیناً ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے ہر قسم کی مثالیں بیان کر دی ہیں کیا عجب کہ وہ نصیحت حاصل کرلیں ۔
و لقد ضربنا للناس في هذا القران من كل مثل لعلهم يتذكرون
And We have certainly presented for the people in this Qur'an from every [kind of] example - that they might remember.
Aur yaqeenan hum ney iss quran mein logon kay liye her qisam ki misalen biyan ker di hain kiya ajab kay woh naseehat hasil kerlen.
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس قرآن میں لوگوں کی خاطر ہر قسم کی مثالیں بیان کی ہیں ، تاکہ لوگ سبق حاصل کریں ۔
اور بیشک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی کہاوت بیان فرمائی کہ کسی طرح انہیں دھیان ہو ( ف٦۸ ) (
ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح کی مثالیں دی ہیں کہ یہ ہوش میں آئیں ۔
اور درحقیقت ہم نے لوگوں کے ( سمجھانے کے ) لئے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال بیان کر دی ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کر سکیں
فیصلے روز قیامت کو ہوں گے ۔ چونکہ مثالوں سے باتیں ٹھیک طور پر سمجھ میں آ جاتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہر قسم کی مثالیں بھی بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ سوچ سمجھ لیں ۔ چنانچہ ارشاد ہے ( ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ 28؀ ) 30- الروم:28 ) اللہ نے تمہارے لئے وہ مثالیں بیان فرمائی ہیں جنہیں تم خود اپنے آپ میں بہت اچھی طرح جانتے بوجھتے ہو ۔ ایک اور آیت میں ہے ان مثالوں کو ہم لوگوں کے سامنے بیان کر رہے ہیں علماء ہی انہیں بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔ یہ قرآن فصیح عربی زبان میں ہے جس میں کوئی کجی اور کوئی کمی نہیں واضح دلیلیں اور روشن حجتیں ہیں ۔ یہ اس لئے کہ اسے پڑھ کر سن کر لوگ اپنا بچاؤ کرلیں ۔ اس کے عذاب کی آیتوں کو سامنے رکھ کر برائیاں چھوڑیں اور اس کے ثواب کی آیتوں کی طرف نظریں رکھ کر نیک اعمال میں محنت کریں ۔ اس کے بعد جناب باری عزاسمہ موحد اور مشرک کی مثال بیان فرماتا ہے کہ ایک تو وہ غلام جس کے مالک بہت سارے ہوں اور وہ بھی آپس میں ایک دوسرے کے مخالف ہوں اور دوسرا وہ غلام جو خالص صرف ایک ہی شخص کی ملکیت کا ہو اس کے سوا اس پر دوسرے کسی کا کوئی اختیار نہ ہو ۔ کیا یہ دونوں تمہرے نزدیک یکساں ہیں؟ ہرگز نہیں ۔ اسی طرح موحد جو صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ہی عبادت کرتا ہے ۔ اور مشرک جس نے اپنے معبود بہت سے بنا رکھے ہیں ۔ ان دونوں میں بھی کوئی نسبت نہیں ۔ کہاں یہ مخلص موحد؟ کہاں یہ در بہ در بھٹکنے والا مشرک؟ اس ظاہر باہر روشن اور صاف مثال کے بیان پر بھی رب العالمین کی حمد و ثنا کرنی چاہئے کہ اس نے اپنے بندوں کو اس طرح سمجھا دیا کہ معاملہ بالکل صاف ہو جائے ۔ شرک کی بدی اور توحید کی خوبی ہر ایک کے ذہن میں آ جائے ۔ اب رب کے ساتھ وہی شرک کریں گے جو محض بےعلم ہوں جن میں سمجھ بوجھ بالکل ہی نہ ہو ۔ اس کے بعد کی آیت کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد پڑھ کر پھر دوسری آیت ( وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ١٤٤؁ ) 3-آل عمران:144 ) کی آخر آیت تک تلاوت کر کے لوگوں کو بتایا تھا ۔ مطلب آیت شریفہ کا یہ ہے کہ سب اس دنیا سے جانے والے ہیں اور آخرت میں اپنے رب کے پاس جمع ہونے والے ہیں ۔ وہاں اللہ تعالیٰ مشرکوں اور موحدوں میں صاف فیصلہ کر دے گا اور حق ظاہر ہو جائے گا ۔ اس سے اچھے فیصلے والا اور اس سے زیادہ علم والا کون ہے؟ ایمان اخلاص اور توحید و سنت والے نجات پائیں گے ۔ شرک و کفر انکار و تکذیب والے سخت سزائیں اٹھائیں گے ۔ اسی طرح جن دو شخصوں میں جو جھگڑا اور اختلاف دنیا میں تھا روز قیامت وہ اللہ عادل کے سامنے پیش ہو کر فیصل ہو گا اس آیت کے نازل ہونے پر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ قیامت کے دن پھر سے جھگڑے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں یقینا تو حضرت عبداللہ نے کہا پھر تو سخت مشکل ہے ( ابن ابی حاتم ) مسند احمد کی اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ آیت ( ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ Ď۝ۧ ) 102- التکاثر:8 ) ۔ یعنی پھر اس دن تم سے اللہ کی نعمتوں کا سوال کیا جائے گا ، کے نازل ہونے پر آپ ہی نے سوال کیا کہ وہ کون سی نعمتیں ہیں جن کی بابت ہم سے حساب لیا جائے گا ؟ ہم تو کھجوریں کھا کر اور پانی پی کر گذارہ کر رہے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب نہیں ہیں تو عنقریب بہت سی نعمتیں ہو جائیں گی ۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن بتاتے ہیں ۔ مسند کی اسی حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت ( اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ 30؀ۡ ) 39- الزمر:30 ) ، کے نازل ہونے پر پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جو جھگڑے ہمارے دنیا میں تھے وہ دوبارہ وہاں قیامت میں دوہرائے جائیں گے؟ ساتھ ہی گناہوں کی بھی پرستش ہو گی ۔ آپ نے فرمایا ہاں وہ ضرور دوہرائے جائیں گے ۔ اور ہر شخص کو اس کا حق پورا پورا دلوایا جائے گا تو آپ نے کہا پھر تو سخت مشکل کام ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے پڑوسیوں کے آپس میں جھگڑے پیش ہوں گے اور حدیث میں ہے اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ سب جھگڑوں کا فیصلہ قیامت کے دن ہو گا ۔ یہاں تک کہ دوبکریاں جو لڑی ہوں گی اور ایک نے دوسری کو سینگ مارے ہوں گے ان کا بدلہ بھی دلوایا جائے گا ( مسند احمد ) مسند ہی کی ایک اور حدیث میں ہے کہ دو بکریوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو یہ کیوں لڑ رہی ہیں؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کیا خبر؟ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے اور وہ قیامت کے دن ان میں بھی انصاف کرے گا ۔ بزار میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ظالم اور خائن بادشاہ سے اس کی رعیت قیامت کے دن جھگڑا کرے گا ۔ بزار میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ظالم اور خائن بادشاہ سے اس کی رعایت قیامت کے دن جھگڑا کرے گی اور اس پر وہ غالب آ جائے گی اور اللہ کا فرمان ضرور ہو گا کہ جاؤ اسے جہنم کا ایک رکن بنا دو ۔ اس حدیث کے ایک راوی اغلب بن تمیم کا حافظہ جیسا چاہئے ایسا نہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ہر سچا جھوٹے سے ، ہر مظلوم ظالم سے ، ہر ہدایت والا گمراہی والے سے ، ہر کمزور زورآور سے اس روز جھگڑے گا ۔ ابن مندہ رحمتہ اللہ اپنی کتاب مظلوم ظالم سے ، ہر ہدایت والا گمراہی والے سے ، ہر کمزور زورآور سے اس روز جھگڑے گا ۔ ابن مندہ رحمتہ اللہ اپنی کتاب الروح میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت لاتے ہیں کہ لوگ قیامت کے دن جھگڑیں گے یہاں تک کہ روح اور جسم کے درمیان بھی جھگڑا ہو گا ۔ روح تو جسم کو الزام دے گی کہ تو نے یہ سب برائیاں کیں اور جسم روح سے کہے گا ساری چاہت اور شرارت تیری ہی تھی ۔ ایک فرشتہ ان میں فیصلہ کرے گا کہے گا سنو ایک آنکھوں والا انسان ہے لیکن اپاہج بالکل لولا لنگڑا چلنے پھرنے سے معذور ہے ۔ دوسرا آدمی اندھا ہے لیکن اس کے پیر سلامت ہیں چلتا پھرتا ہے دونوں ایک باغ میں ہیں ۔ لنگڑا اندھے سے کہتا ہے بھائی یہ باغ تو میوؤں اور پھلوں سے لدا ہوا ہے لیکن میرے تو پاؤں نہیں جو میں جا کر یہ پھل توڑ لوں ۔ اندھا کہتا ہے آؤ میرے پاؤں ہیں تجھے اپنی پیٹھ پر چڑھا لیتا ہوں اور لے چلتا ہوں ۔ چنانچہ یہ دونوں اس طرح پہنچے اور جی کھول کر پھل توڑے بتاؤ ان دونوں میں مجرم کون ہے؟ جسم و روح دونوں جواب دیتے ہیں کہ جرم دونوں کا ہے ۔ فرشتہ کہتا ہے بس اب تو تم نے اپنا فیصلہ آپ کر دیا ۔ یعنی جسم گویا سواری ہے اور روح اس پر سوار ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے پر ہم تعجب میں تھے کہ ہم میں اور اہل کتاب میں تو جھگڑا ہے ہی نہیں پھر آخر روز قیامت میں کس سے جھگڑے ہوں گے؟ اس کے بعد جب آپس کے فتنے شروع ہوگئے تو ہم نے سمجھ لیا کہ یہی آپس کے جھگڑے ہیں جو اللہ کے ہاں پیش ہوں گے ۔ ابو العالیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اہل قبلہ غیر اہل قبلہ سے جھگڑیں گے اور ابن زید رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مراد اہل اسلام اور اہل کفر کا جھگڑا ہے ۔ لیکن ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ فی الواقع یہ آیت عام ہے ۔ الحمد للہ! اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور فضل و رحم سے تفسیر محمدی کا تیسواں پارہ ختم ہوا ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور ہماری تقصیر کی معافی کا سبب اس تفسیر کو بنا دے ۔ ہمیں اپنے پاک کلام کی تلاوت کا ذوق ، اس کے معنی کے سمجھنے کا شوق عطا فرمائے ، علم و عمل کی توفیق دے ، عذاب سے نجات دے ، جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین!