Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ لَا يَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ‌ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ  ۖۚ وَمَا تُخۡفِىۡ صُدُوۡرُهُمۡ اَكۡبَرُ‌ؕ قَدۡ بَيَّنَّا لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿118﴾
اے ایمان والو! تم اپنا دلی دوست ایمان والوں کے سوا اور کسی کو نہ بناؤ ۔ ( تم تو ) نہیں دیکھتے دوسرے لوگ تمہاری تباہی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے وہ چاہتے ہیں کہ تم دکھ میں پڑو ، ان کی عداوت تو خود ان کی زبان سے بھی ظاہر ہوچکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ بہت زیادہ ہے ہم نے تمہارے لئے آیتیں بیان کردیں ۔
يايها الذين امنوا لا تتخذوا بطانة من دونكم لا يالونكم خبالا ودوا ما عنتم قد بدت البغضاء من افواههم و ما تخفي صدورهم اكبر قد بينا لكم الايت ان كنتم تعقلون
O you who have believed, do not take as intimates those other than yourselves, for they will not spare you [any] ruin. They wish you would have hardship. Hatred has already appeared from their mouths, and what their breasts conceal is greater. We have certainly made clear to you the signs, if you will use reason.
Aey eman walo! Tum apna dili dost eman walon kay siwa kissi ko na banao. ( tum to ) nahi dekhtay doosray log tumhari tabahi mein koi kasar utha nahi rakhtay woh to chahtay hain kay tum dukh mein paro inn ki adawat to khud inn ki zaban say zahir ho chuki hai aur jo inn kay seenon mein posheeda hai woh boht ziyada hai hum ney tumharay liye aayaten biyan ker den.
اے ایمان والو ! اپنے سے باہر کے کسی شخص کو راز دار نہ بناؤ ، یہ لوگ تمہاری بدخواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ۔ ( ٣٩ ) ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ ، بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ ( عداوت ) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے ۔ ہم نے پتے کی باتیں تمہیں کھول کھول کر بتا دی ہیں ، بشرطیکہ تم سمجھ سے کام لو ۔
اے ایمان والو! غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ ( ف۲۱٦ ) وہ تمہاری برائی میں کمی نہیں کرتے ان کی آرزو ہے ، جتنی ایذا پہنچے بیَر ان کی باتوں سے جھلک اٹھا اور وہ ( ف۲۱۷ ) جو سینے میں چھپائے ہیں اور بڑا ہے ، ہم نے نشانیاں تمہیں کھول کر سنادیں اگر تمہیں عقل ہو ( ف۲۱۸ )
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ ۔ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھا نے میں نہیں چوکتے ۔ 92 تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے ۔ ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائےہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے ۔ ہم نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں ، اگر تم عقل رکھتےہو ﴿تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے﴾ ۔
اے ایمان والو! تم غیروں کو ( اپنا ) راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری نسبت فتنہ انگیزی میں ( کبھی ) کمی نہیں کریں گے ، وہ تمہیں سخت تکلیف پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں ، بغض تو ان کی زبانوں سے خود ظاہر ہو چکا ہے ، اور جو ( عداوت ) ان کے سینوں نے چھپا رکھی ہے وہ اس سے ( بھی ) بڑھ کر ہے ۔ ہم نے تمہارے لئے نشانیاں واضح کر دی ہیں اگر تمہیں عقل ہو 
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :92 مدینہ کے اطراف میں جو یہودی آباد تھے ان کے ساتھ اوس اور خزرج کے لوگوں کی قدیم زمانہ سے دوستی چلی آتی تھی ۔ انفرادی طور پر بھی ان قبیلوں کے افراد ان کے افراد سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اور قبائلی حیثیت سے بھی یہ اور وہ ایک دوسرے کے ہمسایہ اور حلیف تھے ۔ جب اوس اور خزرج کے قبیلے مسلمان ہوگئے تو اس کے بعد بھی وہ یہودیوں کے ساتھ وہی پرانے تعلقات نباہتے رہے اور ان کے افراد اپنے سابق یہودی دوستوں سے اسی محبت و خلوص کے ساتھ ملتے رہے ۔ لیکن یہودیوں کو نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مشن سے جو عداوت ہوگئی تھی اس کی بنا پر وہ کسی ایسے شخص سے مخلصانہ محبت رکھنے کے لئے تیار نہ تھے جو اس نئی تحریک میں شامل ہوگیا ہو ۔ انہوں نے انصار کے ساتھ ظاہر میں تو وہی تعلقات رکھے جو پہلے سے چلے آتے تھے ، مگر دل میں وہ اب ان کے سخت دشمن ہوچکے تھے اور اس ظاہری دوستی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ہر وقت اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کی جماعت میں اندرونی فتنہ و فساد برپا کردیں اور ان کے جماعتی راز معلوم کرکے ان کے دشمنوں تک پہنچائیں ۔ اللہ تعالیٰ یہاں ان کی اسی منافقانہ روش سے مسلمانوں کو محتاط رہنے کی ہدایت فرما رہا ہے ۔
کافر اور منافق مسلمان کے دوست نہیں انہیں اپنا ہم راز نہ بناؤ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو کافروں اور منافقوں کی دوستی اور ہم راز ہونے سے روکتا ہے کہ یہ تو تمہارے دشمن ہیں ان کی چکنی چپڑی باتوں میں خوش نہ ہو جانا اور ان کے مکر کے پھندے میں پھنس نہ جانا ورنہ موقعہ پا کر یہ تمہیں سخت ضرر پہنچائیں گے اور اپنی باطنی عداوت نکالیں گے تم انہیں اپنا راز دار ہرگز نہ سمجھنا راز کی باتیں ان کے کانوں تک ہرگز نہ پہنچانا بطانہ کہتے ہیں انسان کے راز دار دوست کو اور من دو نکم سے مراد جس خلیفہ کو مقرر کیا اس کیلئے دو بطانہ مقرر کئے ایک تو بھلائی کی بات سمجھانے والا اور اس پر رغبت دینے والا اور دوسرا برائی کی رہبری کرنے والا اور اس پر آمادہ کرنے والا بس اللہ جسے بچائے وہی بچ سکتا ہے ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا کہ یہاں پر حیرہ کا ایک شخص بڑا اچھا لکھنے والا اور بہت اچھے حافظہ والا ہے آپ اسے اپنا محرر اور منشی مقرر کرلیں آپ نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ غیر مومن کو بطانہ بنا لوں گا جو اللہ نے منع کیا ہے ، اس واقعہ کو اور اس آیت کو سامنے رکھ کر ذہن اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ذمی کفار کو بھی ایسے کاموں میں نہ لگانا چاہئے ایسا نہ ہو کہ وہ مخالفین کو مسلمانوں کے پوشیدہ ارادوں سے واقف کر دے اور ان کے دشمنوں کو ان سے ہوشیار کر دے کیونکہ انکی تو چاہت ہی مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی ہوتی ہے ، ازہر بن راشد کہتے ہیں کہ لوگ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیثیں سنتے تھے اگر کسی حدیث کا مطلب سمجھ میں نہ آتا تو حضرت حسن بصری سے جا کر مطلب حل کر لیتے تھے ایک دن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ مشرکوں کی آگ سے روشنی طلب نہ کرو اور اپنی انگوٹھی میں عربی نقش نہ کرو انہوں نے آکر حسن بصری سے اس کی تشریح دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ پچھلے جملہ کا تو یہ مطلب ہے کہ انگوٹھی پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ کھدواؤ اور پہلے جملہ کا یہ مطلب ہے کہ مشرکوں سے اپنے کاموں میں مشورہ نہ لو ، دیکھو کتاب اللہ میں بھی ہے کہ ایمان دارو اپنے سوا دوسروں کو ہمراز نہ بناؤ لیکن حسن بصری کی یہ تشریح قابل غور ہے حدیث کا ٹھیک مطلب غالباً یہ ہے کہ محمد رسول اللہ عربی خط میں اپنی انگوٹھیوں پر نقش نہ کراؤ ، چنانچہ اور حدیث میں صاف ممانعت موجود ہے یہ اس لئے تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے ساتھ مشابہت نہ ہو اور اول جملے کا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کی بستی کے پاس نہ رہو اس کے پڑوس سے دور رہو ان کے شہروں سے ہجرت کر جاؤ جیسے ابو داؤد میں ہے کہ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان کی لڑائی کی آگ کو کیا تم نہیں دیکھتے اور حدیث میں ہے جو مشرکوں سے میل جول کرے یا ان کے ساتھ رہے بسے وہ بھی انہی جیسا ہے پھر فرمایا ان کی باتوں سے بھی ان کی عداوت ٹپک رہی ہے ان کے چہروں سے بھی قیافہ شناس ان کی باطنی خباثتوں کو معلوم کر سکتا ہے پھر جو ان کے دلوں میں تباہ کن شرارتیں ہیں وہ تو تم سے مخفی ہیں لیکن ہم نے تو صاف صاف بیان کر دیا ہے عاقل لوگ ایسے مکاروں کی مکاری میں نہیں آتے پھر فرمایا دیکھو کتنی کمزوری کی بات ہے کہ تم ان سے محبت رکھو اور وہ تمہیں نہ چاہیں ، تمہارا ایمان کل کتاب پر ہو اور یہ شک شبہ میں ہی پڑے ہوئے ہیں ان کی کتاب کو تم تو مانو لیکن یہ تمہاری کتاب کا انکار کریں تو چاہئے تو یہ تھا کہ تم خود انہیں کڑی نظروں سے دیکھتے لیکن برخلاف اس کے یہ تمہاری عداوت کی آگ میں جل رہے ہیں ۔ سامنا ہو جائے تو اپنی ایمانداری کی داستان بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں لیکن جب ذرا الگ ہوتے ہیں تو غیظ و غضب سے جلن اور حسد سے اپنی انگلیاں چباتے ہیں پس مسلمانوں کو بھی ان کی ظاہرداری سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے یہ چاہے جلتے بھنتے رہیں لیکن اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کو ترقی دیتا رہے گا مسلمان دن رات ہر حیثیت میں بڑھتے ہی رہیں گے گو وہ مارے غصے کے مر جائیں ۔ اللہ ان کے دلوں کے بھیدوں سے بخوبی واقف ہے ان کے تمام منصوبوں پر خاک پڑے گی یہ اپنی شرارتوں میں کامیاب نہ ہوسکیں گے اپنی چاہت کے خلاف مسلمانوں کی دن دوگنی ترقی دیکھیں گے اور آخرت میں بھی انہیں نعمتوں والی جنت حاصل کرتے دیکھیں گے برخلاف ان کے یہ خود یہاں بھی رسوا ہوں گے اور وہاں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے ، ان کی شدت عداوت کی یہ کتنی بڑی دلیل ہے کہ جہاں تمہیں کوئی نفع پہنچتا ہے یہ کلیجہ مسوسنے لگے اور اگر ( اللہ نہ کرے ) تمہیں کوئی نقصان پہنچ گیا تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں بغلیں بجانے اور خوشیاں منانے لگتے ہیں ، اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کی مدد ہوئی یہ کفار پر غالب آئے انہیں غنیمت کا مال ملا یہ تعداد میں بڑھ گے تو وہ جل بجھے اور اگر مسلمانوں پر تنگی آگئی یا دشمنوں میں گھر گئے تو ان کے ہاں عید منائی جانے لگی ۔ اب اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو خطاب کر کے فرماتا ہے کہ ان شریروں کی شرارت اور ان بدبختوں کے مکر سے اگر نجات چاہتے ہو تو صبرو تقویٰ اور توکل کرو اللہ عزوجل خود تمہارے دشمنوں کو گھیر لے گا کسی بھلائی کے حاصل کرنے کسی برائی سے بچنے کی کسی میں طاقت نہیں جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہو سکتا جو اس پر توکل کرے اسے وہ کافی ہے ۔ اسی مناسبت سے اب جنگ احد کا ذکر شروع ہوتا ہے جس پر مسلمانوں کے صبرو تحمل کا بیان ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ کی آزمائش کا پورا نقشہ ہے اور جس میں مومن و منافق کی ظاہری تمیز ہے سنئے ارشاد ہوتا ہے