Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ عٰلِمَ الۡغَيۡبِ وَالشَّهَادَةِ اَنۡتَ تَحۡكُمُ بَيۡنَ عِبَادِكَ فِىۡ مَا كَانُوۡا فِيۡهِ يَخۡتَلِفُوۡنَ‏ ﴿46﴾
آپ کہہ دیجئے! کہ اے اللہ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے چھپے کھلے کو جاننے والے تو ہی اپنے بندوں میں ان امور کا فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ الجھ رہے تھے ۔
قل اللهم فاطر السموت و الارض علم الغيب و الشهادة انت تحكم بين عبادك في ما كانوا فيه يختلفون
Say, "O Allah , Creator of the heavens and the earth, Knower of the unseen and the witnessed, You will judge between your servants concerning that over which they used to differ."
Aap keh dijiye! Kay aey Allah ! Aasmano aur zamin kay peda kerney walay chupay khulay ka jannay walay tu hi apnay bandon mein inn umoor ka faisla farmaye ga jin mein who ulajh rahey thay.
کہو :’’ اے اللہ ! اے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے ، ہر غائب و حاضر کے جاننے والے ! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں ‘‘ ۔
تم عرض کرو اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے نہاں اور عیاں کے جاننے والے تو اپنے بندوں میں فیصلہ فرمائے گا جس میں وہ اختلاف رکھتے تھے ( ف۱۰۹ )
کہو ، خدایا! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ، حاضر و غائب کے جاننے والے ، تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں ۔
آپ عرض کیجئے: اے اللہ! آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والے! غیب اور ظاہر کا علم رکھنے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اُن ( امور ) کا فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے
صبح وشام کے بعض وظائف ۔ مشرکین کو جو نفرت توحید سے ہے اور جو محبت شرک سے ہے اسے بیان فرما کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ فرماتا ہے کہ تو صرف اللہ تعالیٰ واحد کو ہی پکار جو آسمان و زمین کا خالق ہے اور اس وقت اس نے انہیں پیدا کیا ہے جبکہ نہ یہ کچھ تھے نہ ان کا کوئی نمونہ تھا ۔ وہ ظاہر و باطن چھپے کھلے کا عالم ہے ۔ یہ لوگ جو جو اختلافات اپنے آپس میں کرتے تھے سب کا فیصلہ اس دن ہو گا جب یہ قبروں سے نکلیں اور میدان قیامت میں آئیں گے ۔ حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن رحمتہ اللہ علیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز کو کس دعا سے شروع کرتے تھے؟ آپ فرماتے ہیں اس دعا سے ( ترجمہ ) یعنی اللہ اے جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل کے رب اے آسمان و زمین کو بےنمونے کے پیدا کرنے والے اسے حاضر و غائب کئے جانے والے تو ہی اپنے بندوں کے اختلاف کا فیصلہ کرنے والا ہے جس جس چیز میں اختلاف کیا گیا ہے تو مجھے ان سب میں اپنے فضل سے حق راہ دکھا تو جسے چاہے سیدھی راہ کی رہنمائی کرتا ہے ( مسلم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو بندہ اس دعا کو پڑھے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے فرشتوں سے فرمائے گا کہ میرے اس بندے نے مجھ سے عہد لیا ہے اس عہد کو پورا کرو ۔ چنانچہ اسے جنت میں پہنچا دیا جائے گا ۔ وہ دعا یہ ہے ( ترجمہ ) یعنی اے اللہ اے آسمان و زمین کو بےنمونے کے پیدا کرنے والے اے غائب و حاضر کے جاننے والے میں اس دنیا میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ میری گواہی ہے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور میری یہ بھی شہادت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں ۔ تو اگر مجھے میری ہی طرف سونپ دے گا تو میں برائی سے قریب اور بھلائی سے دور پڑ جاؤں گا ۔ اللہ مجھے صرف تیری رحمت ہی کا سہارا اور بھروسہ ہے پس تو بھی مجھ سے عہد کر جسے تو قیامت کے دن پورا کرے یقینا تو عہد شکن نہیں ۔ اس حدیث کے راوی سہیل فرماتے ہیں کہ میں نے قاسم بن عبدالرحمٰن سے جب کہا کہ عون اس طرح یہ حدیث بیان کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا سبحان اللہ ہماری تو پردہ نشین بچیوں کو بھی یہ حدیث یاد ہے ( مسند احمد ) حضرت عبداللہ بن عمرو نے ایک کاغذ نکالا اور فرمایا کہ یہ دعا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے ( ترجمہ ) یعنی اے اللہ اے آسمان و زمین کو بےنمونہ پیدا کرنے والے چھپی کھلی کے جاننے والے تو ہر چیز کا رب ہے اور ہر چیز کا معبود ہے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں اور فرشتے بھی یہی گواہی دیتے ہیں ۔ میں شیطان سے اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔ میں تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ میں اپنی جان پر کوئی گناہ کروں یا کسی اور مسلمان کی طرف کسی گناہ کو لے جاؤں ۔ حضرت ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس دعا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو سکھایا تھا اسے سونے کے وقت پڑھا کرتے تھے ۔ ( مسند امام احمد ) اور روایت میں ہے کہ ابو راشد حبرانی نے کوئی حدیث سننے کی خواہش حضرت عبداللہ بن عمرو سے کی تو حضرت عبداللہ نے ایک کتاب نکال کر ان کے سامنے رکھ دی اور فرمایا یہ ہے جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی ہے میں نے دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں صبح و شام کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا یہ پڑھو ۔ ( اللھم فاطرالسموات والارض عالم الغیب والشھادۃ لا الہ الاانت رب کل شئی وملیکہ اعوذبک من شرنفسی وشرالشیطان وشرکہ او افترف علی نفسی سوء اور اجرہ الی مسلم ) ( ترمذی وغیرہ ) مسند احمد کی حدیث میں ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے اس دعا کے پڑھنے کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح شام اور سوتے وقت حکم دیا ہے ، دوسری آیت میں ظالموں سے مراد مشرکین ہیں ۔ فرماتا ہے کہ اگر ان کے پاس روئے زمین کے خزانے اتنے ہی اور ہوں تو بھی یہ قیامت کے بدترین عذاب کے بدلے انہیں اپنے فدیئے میں اور اپنی جان کے بدلے میں دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے ۔ لیکن اس دن کوئی فدیہ اور بدلہ قبول نہ کیا جائے گا گو زمین بھر کر سونا دیں جیسے کہ اور آیت میں بیان فرما دیا ہے ۔ آج اللہ کے وہ عذاب ان کے سامنے آئیں گے کہ کبھی انہیں ان کا خیال بھی نہ گذرا تھا جو جو حرام کاریاں بدکاریاں گناہ اور برائیاں انہوں نے دنیا میں کی تھیں اب سب کی سب اپنے آگے موجود پائیں گے دنیا میں جس سزا کا ذکر سن کر مذاق کرتے تھے آج وہ انہیں چاروں طرف سے گھیر لے گی ۔