Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
فَاِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ اِذَا خَوَّلۡنٰهُ نِعۡمَةً مِّنَّا ۙ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوۡتِيۡتُهٗ عَلٰى عِلۡمٍ‌ؕ بَلۡ هِىَ فِتۡنَةٌ وَّلٰـكِنَّ اَكۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿49﴾
انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارنے لگتا ہے ، پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا فرما دیں تو کہنے لگتا ہے کہ اسے تو میں محض اپنے علم کی وجہ سے دیا گیا ہوں بلکہ یہ آزمائش ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ بے علم ہیں ۔
فاذا مس الانسان ضر دعانا ثم اذا خولنه نعمة منا قال انما اوتيته على علم بل هي فتنة و لكن اكثرهم لا يعلمون
And when adversity touches man, he calls upon Us; then when We bestow on him a favor from Us, he says, "I have only been given it because of [my] knowledge." Rather, it is a trial, but most of them do not know.
Insan ko jab koi takleef phonchti hai to humen pukarney lagta hai phir jab hum ussay apni taraf say koi nemat ata farma den to kehney lagta hai kay issay to mein mehaz apnay ilm ki waja say diya gaya hun bulkay yeh aazmaeesh hai lekin inn mein say aksar log bey-ilm hain.
پھر ( 16 ) انسان ( کا حال یہ ہے کہ جب اس ) کو کوئی تکلیف چھو جاتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے ، اس کے بعد جب ہم اسے اپنی طرف سے کسی نعمت سے نوازتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ : ’’ یہ تو مجھے ( اپنے ) ہنر کی وجہ سے ملی ہے ‘‘ ۔ نہیں ! بلکہ یہ آزمائش ہے ، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے
پھر جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں بلاتا ہے پھر جب اسے ہم اپنے پاس سے کوئی نعمت عطا فرمائیں کہتا ہے یہ تو مجھے ایک علم کی بدولت ملی ہے ( ف۱۱۵ ) بلکہ وہ تو آزمائش ہے ( ف۱۱٦ ) مگر ان میں بہتوں کو علم نہیں ( ف۱۱۷ )
یہی انسان 65 جب ذرا سی مصیبت اسے چھو جاتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے ، اور جب ہم اسے اپنی طرف سے نعمت دے کر اپھار دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے علم کی بنا پر دیا گیا ہے ! 66 نہیں ، بلکہ یہ آزمائش ہے ، مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں 67 ۔
پھر جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت بخش دیتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ یہ نعمت تو مجھے ( میرے ) علم و تدبیر ( کی بنا ) پر ملی ہے ، بلکہ یہ آزمائش ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :65 یعنی جسے اللہ کے نام سے چڑ ہے اور اکیلے اللہ کا ذکر سن کر جس کا چہرہ بگڑنے لگتا ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :66 اس فقرے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ جانتا ہے کہ میں اس نعمت کا اہل ہوں ، اسی لیے اس نے مجھے یہ کچھ دیا ہے ، ورنہ اگر اس کے نزدیک میں ایک برا عقیدہ اور غلط کار آدمی ہوتا تو مجھے یہ نعمتیں کیوں دیتا ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تو مجھے میری قابلیت کی بنا پر ملا ہے ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :67 لوگ اپنی جہالت و نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جسے کوئی نعمت مل رہی ہے وہ لازماً اس کی اہلیت و قابلیت کی بنا پر مل رہی ہے ، اور اس نعمت کا ملنا اس کے مقبول بارگاہ الہٰی ہونے کی علامت یا دلیل ہے ۔ حالانکہ یہاں جسکو جو کچھ بھی دیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کے طور پر دیا جا رہا ہے ۔ یہ امتحان کا سامان ہے نہ کہ قابلیت کا انعام ، ورنہ آخر کیا وجہ ہے کہ بہت سے قابل آدمی خستہ حال ہیں اور بہت سے ناقابل آدمی نعمتوں میں کھیل رہے ہیں ۔ اسی طرح یہ دنیوی نعمتیں مقبول بارگاہ ہونے کی علامت بھی نہیں ہیں ۔ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ دنیا میں بکثرت ایسے نیک آدمی مصائب میں مبتلا ہیں جن کے نیک ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور بہت سے برے آدمی ، جن کی قبیح حرکات سے ایک دنیا واقف ہے ، عیش کر رہے ہیں ۔ اب کیا کوئی صاحب عقل آدمی ایک کی مصیبت اور دوسرے کے عیش کو اس بات کی دلیل بنا سکتا ہے کہ نیک انسان کو اللہ پسند نہیں کرتا اور بد انسان کو وہ پسند کرتا ہے ؟
انسان کا ناشکرا پن ۔ اللہ تعالیٰ انسان کی حالت کو بیان فرماتا ہے کہ مشکل کے وقت تو وہ آہ و زاری شروع کردیتا ہے ، اللہ کی طرف پوری طرح راجع اور راغب ہو جاتا ہے ، لیکن جہاں مشکل ہوگئی جہاں راحت و نعمت حاصل ہوئی یہ سرکش و متکبر بنا ۔ اور اکڑتا ہوا کہنے لگا کہ یہ تو اللہ کے ذمے میرا حق تھا ۔ میں اللہ کے نزدیک اس کا مستحق تھا ہی ۔ میری اپنی عقل مندی اور خوش تدبیری کی وجہ سے اس نعمت کو میں نے حاصل کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بات یوں نہیں بلکہ دراصل عقل مندی اور خوش تدبیری کی وجہ سے اس نعمت کو میں نے حاصل کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بات یوں نہیں بلکہ دراصل یہ ہماری طرف کی آزمائش ہے گو ہمیں ازل سے علم حاصل ہے لیکن تاہم ہم اسے ظہور میں لانا چاہتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس نعمت کا یہ شکر ادا کرتا ہے یا ناشکری؟ لیکن یہ لوگ بےعلم ہیں ۔ دعوے کرتے ہیں منہ سے بات نکال دیتے ہیں لیکن اصلیت سے بےخبر ہیں ، یہی دعویٰ اور یہی قول ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی کیا اور کہا ، لیکن ان کا قول صحیح ثابت نہ ہوا اور ان نعمتوں نے ، کسی اور چیز نے اور ان کے اعمال نے انہیں کوئی نفع نہ دیا ، جس طرح ان پر وبال ٹوٹ پڑا اسی طرح ان پر بھی ایک دن ان کی بداعمالیوں کا وبال آپڑے گا اور یہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ نہ تھکا اور ہرا سکتے ہیں ۔ جیسے کہ قارون سے اس کی قوم نے کہا تھا کہ اس قدر اکڑ نہیں اللہ تعالیٰ خود پسندوں کو محبوب نہیں رکھتا ۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو خرچ کرکے آخرت کی تیاری کر اور وہاں کا سامان مہیا کر ۔ اس دنیا میں بھی فائدہ اٹھاتا رہ اور جیسے اللہ نے تیرے ساتھ سلوک کیا ہے ، تو بھی لوگوں کے ساتھ احسان کرتا رہ ۔ زمین میں فساد کرنے والا مت بن اللہ تعالیٰ مفسدوں سے محبت نہیں کرتا ۔ اس پر قارون نے جواب دیا کہ ان تمام نعمتوں اور جاہ و دولت کو میں نے اپنی دانائی اور علم و ہنر سے حاصل کیا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا اسے یہ معلوم نہیں کہ اس سے پہلے اس سے زیادہ قوت اور اس سے زیادہ جمع جتھا والوں کو میں نے ہلاک و برباد کردیا ہے ، مجرم اپنے گناہوں کے بارے میں پوچھے نہ جائیں گے ۔ الغرض مال و اولاد پر پھول کر اللہ کو بھول جانا یہ شیوہ کفر ہے ۔ کفار کا قول تھا کہ ہم مال و اولاد میں زیادہ ہیں ہمیں عذاب نہیں ہوگا ، کیا انہیں اب تک یہ معلوم نہیں کہ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے جس کیلئے چاہے کشادگی کرے اور جس پر چاہے تنگی کرے ۔ اس میں ایمان والوں کیلئے طرح طرح کی عبرتیں اور دلیلیں ہیں ۔