Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قُلۡ يٰعِبَادِىَ الَّذِيۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَةِ اللّٰهِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِيۡعًا‌ ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿53﴾
۔ ( میری جانب سے ) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ بالیقین اللہ تعالٰی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے واقعی وہ بڑی ، بخشش بڑی رحمت والا ہے
قل يعبادي الذين اسرفوا على انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله ان الله يغفر الذنوب جميعا انه هو الغفور الرحيم
Say, "O My servants who have transgressed against themselves [by sinning], do not despair of the mercy of Allah . Indeed, Allah forgives all sins. Indeed, it is He who is the Forgiving, the Merciful."
( meri janib say ) keh do kau aey meray bando! Jinhon ney apni jano per ziyadti ki hai tum Allah ki rehmat say na-umeed na hojao bil-yaqeen Allah Taalaa saray gunahon ko bakhash deta hai waqaee woh bari bakhsish bari rehmat wala hai.
کہہ دو کہ : ’’ اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے ۔ ( 18 ) یقینا وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے ۔
تم فرماؤ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ( ف۱۲۱ ) اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ( ف۱۲۲ ) بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے ، (
۔ ( اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ) کہہ دو کہ اے میرے بندو70 ، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ ، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے ، وہ تو غفور رحیم ہے 71 ،
آپ فرما دیجئے: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے ، وہ یقینا بڑا بخشنے والا ، بہت رحم فرمانے والا ہے
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :70 بعض لوگوں نے ان الفاظ کی یہ عجیب تاویل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اے میرے بندو کہہ کر لوگوں سے خطاب کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا سب انسان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے ہیں ۔ یہ درحقیقت ایک ایسی تاویل ہے جسے تاویل نہیں بلکہ قرآن کی بد ترین معنوی تحریف اور اللہ کے کلام کے ساتھ کھیل کہنا چاہیے ۔ جاہل عقیدت مندوں کا کوئی گروہ تو اس نکتے کو سن کر جھوم اٹھے گا ، لیکن یہ تاویل اگر صحیح ہو تو پھر پورا قرآن غلط ہوا جاتا ہے ، کیونکہ قرآن تو از اول تا آخر انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ قرار دیتا ہے ، اور اسکی ساری دعوت ہی یہ ہے کہ تم ایک اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود بندے تھے ۔ ان کو اللہ نے رب نہیں بلکہ رسول بنا کر بھیجا تھا ۔ اور اس لیے بھیجا تھا کہ خود بھی اسی کی بندگی کریں اور لوگوں کو بھی اسی کی بندگی سکھائیں ۔ آخر کسی صاحب عقل آدمی کے دماغ میں یہ بات کیسے سما سکتی ہے کہ مکہ معظمہ میں کفار قریش کے درمیان کھڑے ہو کر ایک روز محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یکایک یہ اعلان کر دیا ہو گا کہ تم عبدالعزّیٰ اور عبد شمس کے بجائے دراصل عبدِ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہو ، اعاذنا اللہ من ذالک ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :71 یہ خطاب تمام انسانوں سے ہے ، صرف اہل ایمان کو مخاطب قرار دینے کے لیے کوئی وزنی دلیل نہیں ہے ۔ اور جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے ، عام انسانوں کو مخاطب کر کے یہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بغیر توبہ و انابت کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے ، بلکہ بعد والی آیات میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی وضاحت فرما دی ہے کہ گناہوں کی معافی کو صورت بندگی و اطاعت کی طرف پلٹ آنا اور اللہ کے نازل کیے ہوئے پیغام کی پیروی اختیار کر لینا ہے ۔ دراصل یہ آیت ان لوگوں کے لیے پیغام امید لے کر آئی تھی جو جاہلیت میں قتل ، زنا ، چوری ، ڈاکے اور ایسے ہی سخت گناہوں میں غرق رہ چکے تھے ، اور اس بات سے مایوس تھے کہ یہ قصور کبھی معاف ہو سکیں گے ۔ ان سے فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ ، جو کچھ بھی تم کر چکے ہو اس کے بعد اب اگر اپنے رب کی اطاعت کی طرف پلٹ آؤ تو سب کچھ معاف ہو جائے گا ۔ اس آیت کی تاویل ابن عباس ، قتادہ ، مجاہد اور ابن زید نے بیان کی ہے ( ابن جریر ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ) ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، ص 466 تا 468 ۔
توبہ تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ ۔ اس آیت میں تمام نافرمانوں کو گو وہ مشرک و کافر بھی ہوں توبہ کی دعوت دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ کی ذات غفور و رحیم ہے ۔ وہ ہر تائب کی توبہ قبول کرتا ہے ۔ ہر جھکنے والی کی طرف متوجہ ہوتا ہے توبہ کرنے والے کے اگلے گناہ بھی معاف فرما دیتا ہے گو وہ کیسے ہی ہوں کتنے ہی ہوں کبھی کے ہوں ۔ اس آیت کو بغیر توبہ کے گناہوں کی بخشش کے معنی میں لینا صحیح نہیں اس لئے کہ شرک بغیر توبہ کے بخشا نہیں جاتا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ بعض مشکرین جو قتل و زنا کے بھی مرتکب تھے حاضر خدمت نبوی ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یہ آپ کی باتیں اور آپ کا دین ہمیں ہر لحاظ سے اچھا اور سچا معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن یہ بڑے بڑے گناہ جو ہم سے ہوچکے ہیں ان کا کفارہ کیا ہوگا ؟ اس پر آیت ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا 68؀ۙ ) 25- الفرقان:68 ) ، یہ اور آیت نازل ہوئی ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں مجھے ساری دنیا اور اس کی ہر چیز کے ملنے سے اتنی خوشی نہ ہوئی جتنی اس آیت کے نازل ہونے سے ہوئی ہے ۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ جس نے شرک کیا ہو؟ آپ نے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد فرمایا خبردار رہو جس نے شرک بھی کیا ہو تین مرتبہ یہی فرمایا ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک بوڑھا بڑا شخص لکڑی ٹکاتا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میرے چھوٹے موٹے گناہ بہت سارے ہیں کیا مجھے بھی بخشا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کی توحید کی گواہی نہیں دیتا ؟ اس نے کہا ہاں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی بھی دیتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرے چھوٹے موٹے گناہ معاف ہیں ، ابو داؤد ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ اس آیت کی تلاوت اسی طرح فرما رہے تھے ( اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ 46؀ ) 11-ھود:46 ) اور اس آیت کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53؀ ) 39- الزمر:53 ) پس ان تمام احادیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ توبہ سے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ بندے کو رحمت رب سے مایوس نہ ہونا چاہئے ۔ گو گناہ کتنے ہی بڑے اور کتنے ہی کثرت سے ہوں ۔ توبہ اور رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوا رہتا ہے اور وہ بہت ہی وسیع ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( الم یعلموا ان اللہ ھو یقبل التوبتہ عن عبادہ ) کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ۔ اور فرمایا ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ١١٠؁ ) 4- النسآء:110 ) جو برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر اللہ سے استغفار کرے وہ اللہ کو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا پائے گا ۔ منافقوں کی سزا جو جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوگی اسے بیان فرما کر بھی فرمایا ( اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰۗىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۚوَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ١٦٠؁ ) 2- البقرة:160 ) یعنی ان سے وہ مستثنیٰ ہیں جو توبہ کریں اور اصلاح کرلیں ۔ مشرکین نصاریٰ کے اس شرک کا کہ وہ اللہ کو تین میں کا تیسرا مانتے ہیں ذکر کرکے ان کی سزاؤں کے بیان سے پہلے فرما دیا ( وَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 73؀ ) 5- المآئدہ:73 ) کہ اگر یہ اپنے قول سے باز نہ آئے تو ۔ پھر اللہ تعالیٰ عظمت و کبریائی جلال و شان والے نے فرمایا یہ کیوں اللہ سے توبہ نہیں کرتے اور کیوں اس سے استغفار نہیں کرتے؟ وہ تو بڑا ہی غفور و رحیم ہے ۔ ان لوگوں کا جنہوں نے خندقیں کھود کر مسلمانوں کو آگ میں ڈالا تھا ذکر کرتے ہوئے بھی فرمایا ہے کہ جو مسلمان مرد عورتوں کو تکلیف پہنچا کر پھر بھی توبہ نہ کریں ان کیلئے عذاب جہنم اور عذاب نار ہے ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے کرم و جود کو دیکھو کہ اپنے دوستوں کے قاتلوں کو بھی توبہ اور مغفرت کی طرف بلا رہا ہے ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں اس شخص کا واقعہ بھی مذکور ہے جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا تھا ۔ پھر بنی اسرائیل کے ایک عابد سے پوچھا کہ کیا اس کیلئے بھی توبہ ہے؟ اس نے انکار کیا اس نے اسے بھی قتل کردیا ۔ پھر ایک عالم سے پوچھا اس نے جواب دیا کہ تجھ میں اور توبہ میں کوئی روک نہیں اور حکم دیا کہ موحدوں کی بستی میں چلا جا چنانچہ یہ اس گاؤں کی طرف چلا لیکن راستے میں ہی موت آگئی ۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں آپس میں اختلاف ہوا ۔ اللہ عزوجل نے زمین کے ناپنے کا حکم دیا تو ایک بالشت بھر نیک لوگوں کی بستی جس طرف وہ ہجرت کرکے جا رہا تھا قریب نکلی اور یہ انہی کے ساتھ ملا دیا گیا اور رحمت کے فرشتے اس کی روح کو لے گئے ۔ یہ بھی مذکور ہے کہ وہ موت کے وقت سینے کے بل اس طرف گھسیٹتا ہوا چلا تھا ۔ اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ نیک لوگوں کی بستی کے قریب ہو جانے کا اور برے لوگوں کی بستی کے دور ہو جانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا ۔ یہ ہے اس حدیث کا خلاصہ ، پوری حدیث اپنی جگہ بیان ہوچکی ہے ۔ حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے تمام بندوں کو اپنی مغفرت کی طرف بلایا ہے انہیں بھی جو حضرت مسیح کو اللہ کہتے تھے انہیں بھی جو آپ کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے انہیں بھی جو حضرت عزیز کو اللہ کا بیٹا بتاتے تھے انہیں بھی جو اللہ کو فقیر کہتے تھے انہیں بھی جو اللہ کے ہاتھوں کو بند بتاتے تھے انہیں بھی جو اللہ تعالیٰ کو تین میں کا تیسرا کہتے تھے اللہ تعالیٰ ان سب سے فرماتا ہے کہ یہ کیوں اللہ کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں اس سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں چاہتے؟ اللہ تو بڑی بخشش والا اور بہت ہی رحم و کرم والا ہے ۔ پھر توبہ کی دعوت اللہ تعالیٰ نے اسے دی جس کا قول ان سب سے بڑھ چڑھ کر تھا ۔ جس نے دعویٰ کیا تھا کہ میں تمہارا بلند و بالا رب ہوں ۔ جو کہتا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ تمہارا کوئی معبود میرے سوا ہو ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بھی جو شخص اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کرے ۔ وہ اللہ عزوجل کی کتاب کا منکر ہے ۔ لیکن اسے سمجھ لو کہ جب تک اللہ کسی بندے پر اپنی مہربانی سے رجوع نہ فرمائے اسے توبہ نصیب نہیں ہوتی ۔ طبرانی میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ کتاب اللہ قرآن کریم میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت آیت الکرسی ہے اور خیر و شر کی سب سے زیادہ جامع آیت ( اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ 90؀ ) 16- النحل:90 ) ہے اور سارے قرآن میں سب سے زیادہ خوشی کی آیت سورۃ زمر کی ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53؀ ) 39- الزمر:53 ) ہے اور سب سے زیادہ ڈھارس دینے والی آیت ( من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب ) ہے یعنی اللہ سے ڈرتے رہنے والوں کی مخلصی خود اللہ کردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں کا اسے خیال و گمان بھی نہ ہو ۔ حضرت مسروق نے یہ سن کر فرمایا کہ بیشک آپ سچے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جا رہے تھے کہ آپ نے ایک واعظ کو دیکھا جو لوگوں کو نصیحتیں کر رہا تھا کہ آپ نے فرمایا ۔ تو کیوں لوگوں کو مایوس کر رہا ہے؟ پھر اسی آیت کی تلاوت کی ۔ ( ابن ابی حاتم ) ان احادیث کا بیان جن میں ناامیدی اور مایوسی کی ممانعت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسکی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم خطائیں کرتے کرتے زمین و آسمان پر کردو پھر اللہ سے استغفار کرو تو یقینا وہ تمہیں بخش دے گا ۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے اگر تم خطائیں کرو ہی نہیں تو اللہ عزوجل تمہیں فنا کرکے ان لوگوں کو لائے گا جو خطا کرکے استغفار کریں اور پھر اللہ انہیں بخشے ۔ ( مسند امام احمد ) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے انتقال کے وقت فرماتے ہیں ۔ ایک حدیث میں نے تم سے آج تک بیان نہیں کی تھی اب بیان کردیتا ہوں ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا اگر تم گناہ ہی نہ کرتے تو اللہ عزوجل ایسی قوم کو پیدا کرتا جو گناہ کرتی پھر اللہ انہیں بخشتا ۔ ( صحیح مسلم وغیرہ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گناہ کا کفارہ ندامت اور شرمساری ہے اور آپ نے فرمایا اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو لاتا جو گناہ کریں پھر وہ انہیں بخشے ( مسند احمد ) آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتا ہے جو کامل یقین رکھنے والا اور گناہوں سے توبہ کرنے والا ہو ( مسند احمد ) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ ابلیس ملعون نے کہا اے میرے رب تونے مجھے آدم کی وجہ سے جنت سے نکالا ہے اور میں اس پر اس کے بغیر کہ تو مجھے اس پر غلبہ دے غالب نہیں آسکتا ۔ جناب باری نے فرمایا جا تو ان پر مسلط ہے ۔ اس نے کہا اللہ کچھ اور بھی مجھے زیادتی عطا فرما ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جا بنی آدم میں جتنی اولاد پیدا ہوگی اتنی ہی تیرے ہاں بھی ہوگی ۔ اس نے پھر التجا کی باری تعالیٰ کچھ اور بھی مجھے زیادتی دے ۔ پروردگار عالم نے فرمایا بنی آدم کے سینے میں تیرے لئے مسکن بنادوں گا اور تم ان کے جسم میں خون کی جگہ پھرو گے اس نے پھر کہا کہ کچھ اور بھی مجھے زیادتی عنایت فرما ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جا تو ان پر اپنے سوار اور پیادے دوڑا ۔ اور ان کے مال و اولاد میں اپنا ساجھا کر اور انہیں امنگیں دلا ۔ گو حقیقتاً تیرا امنگیں دلانا اور وعدے کرنا سراسر دھوکے کی ٹٹی ہیں ۔ اس وقت حضرت آدم علیہ السلام نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار تونے اسے مجھ پر مسلط کردیا اب میں اس سے تیرے بچائے بغیر بچ نہیں سکتا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا سنو تمہارے ہاں جو اولاد ہوگی اس کے ساتھ میں ایک محافظ مقرر کردوں گا جو شیطانی پنجے سے محفوظ رکھے ۔ حضرت آدم نے اور زیادتی طلب کی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایک نیکی کو دس گنا کرکے دوں گا بلکہ دس سے بھی زیادہ ۔ اور برائی اسی کے برابر رہے گی یا معاف کردوں گا ۔ آپ نے پھر بھی اپنی یہی دعا جاری رکھی ۔ رب العزت نے فرمایا توبہ کا دروازہ تمہارے لئے اس وقت تک کھلا ہے جب تک روح جسم میں ہے ، حضرت آدم نے دعا کی اللہ مجھے اور زیادتی بھی عطا فرما ۔ اب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی کہ میرے گنہگار بندوں سے کہہ دو وہ میری رحمت سے مایوس نہ ہوں ۔ ( ابن ابی حاتم ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ جو لوگ بوجہ اپنی کمزوری کے کفار کی تکلیفیں برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے اپنے دین میں فتنے میں پڑگئے ہم اس کی نسبت آپس میں کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوئی نیکی اور توبہ قبول نہ فرمائے گا ان لوگوں نے اللہ کو پہچان کر پھر کفر کو لے لیا اور کافروں کی سختی کو برداشت نہ کیا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں ہمارے اس قول کی تردید کردی اور ( یا عبادی الذین اسرفوا سے لا تشعرون ) تک آیتیں نازل ہوئیں ۔ حضرت عمر فرماتے ہیں میں نے اپنے ہاتھ سے ان آیتوں کو لکھا اور ہشام بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دیا ، حضرت ہشام فرماتے ہیں میں اس وقت ذی طویٰ میں تھا میں انہیں پڑھ رہا تھا اور بار بار پڑھتا جاتا تھا اور خوب غور و خوض کر رہا تھا لیکن اصلی مطلب تک ذہن رسائی نہیں کرتا تھا ۔ آخر میں نے دعا کی کہ پروردگار ان آیتوں کا صحیح مطلب اور ان کو میری طرف بھیجے جانے کا صحیح مقصد مجھ پر واضح کردے ۔ چنانچہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے ڈالا گیا کہ ان آیتوں سے مراد ہم ہی ہیں یہ ہمارے بارے میں ہیں اور ہمیں جو خیال تھا کہ اب ہماری توبہ قبول نہیں ہوسکتی اسی بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔ اسی وقت میں واپس مڑا اپنا اونٹ لیا اس پر سواری کی اور سیدھا مدینے میں آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا ۔ ( سیرۃ ابن اسحاق ) بندوں کی مایوسی کو توڑ کر انہیں بخشش کی امید دلا کر پھر حکم دیا اور رغبت دلائی کہ وہ توبہ اور نیک عمل کی طرف سبقت اور جلدی کریں ایسا نہ ہو کہ اللہ کے عذاب آپڑیں ۔ جس وقت کہ کسی کی مدد کچھ نہیں آتی اور انہیں چاہئے کہ عظمت والے قرآن کریم کی تابعداری اور ماتحتی میں مشغول ہو جائیں اس سے پہلے کہ اچانک عذاب آئیں اور یہ بےخبری میں ہی ہوں ، اس وقت قیامت کے دن بےتوبہ مرنے والے اور اللہ کی عبادت میں کمی لانے والے بڑی حسرت اور بہت افسوس کریں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش کہ ہم خلوص کے ساتھ احکام اللہ بجا لاتے ۔ افسوس! کہ ہم تو بےیقین رہے ۔ اللہ کی باتوں کی تصدیق ہی نہ کی بلکہ ہنسی مذاق ہی سمجھتے رہے اور کہیں گے کہ اگر ہم بھی ہدایت پالیتے تو یقینا رب کی نافرمانیوں سے دنیا میں اور اللہ کے عذاب سے آخرت میں بچ جاتے اور عذاب کو دیکھ کر افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کہ اگر اب دوبارہ دنیا کی طرف جانا ہو جائے تو دل کھول کر نیکیاں کرلیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بندے کیا عمل کریں گے اور کیا کچھ وہ کہیں گے ۔ انکے عمل اور ان کے قول سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر دیدی اور فی الواقع اس سے زیادہ باخبر کون ہوسکتا ہے؟ نہ اس سے زیادہ سچی خبر کوئی دے سکتا ہے ۔ بدکاروں کے یہ تینوں قول بیان فرمائے اور دوسری جگہ یہ خبر دیدی کہ اگر یہ واپس دنیا میں بھیجے جائیں تو بھی ہدایت کو اختیار نہ کریں گے ۔ بلکہ جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کرنے لگیں گے اور یہاں جو کہتے ہیں سب جھوٹ نکلے گا ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے ہر جہنمی کو اس کی جنت کی جگہ دکھائی جاتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے کاش کہ اللہ مجھے ہدایت دیتا ۔ یہ اس لئے کہ اسے حسرت و افسوس ہو ۔ اور اسی طرح ہر جنتی کو اس کی جہنم کی جگہ دکھائی جاتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دیتا تو وہ جنت میں نہ آسکتا ۔ یہ اس لئے کہ وہ شکر اور احسان کے ماننے میں اور بڑھ جائے ، جب گنہگار لوگ دنیا کی طرف لوٹنے کی آرزو کریں گے اور اللہ کی آیتوں کی تصدیق نہ کرنے کی حسرت کریں گے اور اللہ کے رسولوں کو نہ ماننے پر کڑھنے لگیں گے تو اللہ سبحان و تعالیٰ فرمائے گا کہ اب ندامت لاحاصل ہے پچھتاوا بےسود ہے دنیا میں ہی میں تو اپنی آیتیں اتار چکا تھا ۔ اپنی دلیلیں قائم کرچکا تھا ، لیکن تو انہیں جھٹلاتا رہا اور ان کی تابعداری سے تکبر کرتا رہا ، ان کا منکر رہا ۔ کفر اختیار کیا ، اب کچھ نہیں ہوسکتا ۔