Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِذۡ غَدَوۡتَ مِنۡ اَهۡلِكَ تُبَوِّئُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ مَقَاعِدَ لِلۡقِتَالِ‌ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌۙ‏ ﴿121﴾
اے نبی! اس وقت کو بھی یاد کرو جب صبح ہی صبح آپ اپنے گھر سے نکل کر مسلمانوں کو میدان جنگ میں لڑائی کے مورچوں پر باقاعدہ بٹھا رہے تھے اللہ تعالٰی سننے اور جاننے والا ہے ۔
و اذ غدوت من اهلك تبو المؤمنين مقاعد للقتال و الله سميع عليم
And [remember] when you, [O Muhammad], left your family in the morning to post the believers at their stations for the battle [of Uhud] - and Allah is Hearing and Knowing -
Aey nabi! Uss waqt ko bhi yaad kero jab subha hi subha aap apney ghar say nikal ker musalmanon ko maidan-e-jang mein laraee kay morchon mein bitha rahey thay Allah Taalaa sunney janney wala hai.
۔ ( اے پیغبر ! جنگ احد کا وہ وقت یاد کرو ) جب تم صبح کے وقت اپنے گھر سے نکل کر مسلمانوں کو جنگ کے ٹھکانوں پر جما رہے تھے ، ( ٤٠ ) اور اللہ سب کچھ سننے جاننے والا ہے ۔
اور یاد کرو اے محبوب! جب تم صبح کو ( ف۲۲٦ ) اپنے دولت خانہ سے برآمد ہوئے مسلمانوں کو لڑائی کے مور چوں پر قائم کرتے ( ف۲۲۷ ) اور اللہ سنتا جانتا ہے ،
94 ﴿اے پیغمبر! مسلمانوں کے سامنے اس موقع کا ذکر کرو ﴾ جب تم صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے تھے اور﴿احد کے میدان میں﴾ مسلمانوں کو جنگ کے لیے جا بجا مامور کر رہے تھے ۔ اللہ ساری باتیں سنتا ہے اور وہ نہایت باخبر ہے ۔
اور ( وہ وقت یاد کیجئے ) جب آپ صبح سویرے اپنے درِ دولت سے روانہ ہو کر مسلمانوں کو ( غزوۂ احد کے موقع پر ) جنگ کے لئے مورچوں پر ٹھہرا رہے تھے ، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :94 یہاں سے چوتھا خطبہ شروع ہوتا ہے ۔ یہ جنگ احد کے بعد نازل ہوا ہے اور اس میں جنگ احد پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔ اوپر کے خطبہ کو ختم کرتے ہوئے آخر میں ارشاد ہوا تھا کہ”ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو ۔ “ اب چونکہ احد کے میدان میں مسلمانوں کی شکست کا سبب ہی یہ ہوا کہ ان کے اندر صبر کی بھی کمی تھی اور ان کے افراد سے بعض ایسی غلطیاں بھی سرزد ہوئی تھیں جو خدا ترسی کے خلاف تھیں ، اس لیے یہ خطبہ جس میں انہیں ان کمزوریوں پر متنبہ کیا گیا ہے ، مندرجہ بالا فقرے کے بعد ہی متصلاً درج کیا گیا ۔ اس خطبے کا انداز بیان یہ ہے کہ جنگ احد کے سلسلہ میں جتنے اہم واقعات پیش آئے تھے ان میں سے ایک ایک کو لے کر اس پر چند جچے تلے فقروں میں نہایت سبق آموز تبصرہ کیا گیا ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لیے اس کے واقعاتی پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ۔ شوال سن ۳ ہجری کی ابتدا میں کفار قریش تقریباً ۳ ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے ۔ تعداد کی کثرت کے علاوہ ان کے پاس ساز و سامان بھی مسلمانوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تھا ، اور پھر وہ جنگ بدر کے انتقام کا شدید جوش بھی رکھتے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تجربہ کار صحابہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں محصور ہو کر مدافعت کی جائے ۔ مگر چند نوجوانوں نے ، جو شہادت کے شوق سے بے تاب تھے اور جنھیں بدر کی جنگ میں شریک ہونے کا موقعہ نہ ملا تھا ، باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا ۔ آخر کار ان کے اصرار سے مجبور ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکلنے ہی کا فیصلہ فرما لیا ۔ ایک ہزار آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ، مگر مقام شوط پر پہنچ کر عبداللہ ابن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہو گیا ۔ عین وقت پر اس کی اس حرکت سے مسلمانوں کے لشکر میں اچھا خاصہ اضطراب پھیل گیا ، حتٰی کہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ کے لوگ تو ایسے دل شکستہ ہوئے کہ انہوں نے بھی پلٹ جانے کا ارادہ کر لیا تھا ، مگر پھر اولو العزم صحابہ کی کوششوں سے یہ اضطراب رفع ہو گیا ۔ ان باقی ماندہ سات سو آدمیوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور احد کی پہاڑی کے دامن میں ( مدینہ سے تقریباً چار میل کے فاصلہ پر ) اپنی فوج کو اس طرح صف آرا کیا کہ پہاڑ پشت پر تھا اور قریش کا لشکر سامنے ۔ پہلو میں صرف ایک درہ ایسا تھا جس سے اچانک حملہ کا خطرہ ہو سکتا تھا ۔ وہاں آپ نے عبداللہ بن جبیر کے زیر قیادت پچاس تیر انداز بٹھا دیے اور ان کو تاکید کر دی کہ ”کسی کو ہمارے قریب نہ پھٹکنے دینا ، کسی حال میں یہاں سے نہ ہٹنا ، اگر تم دیکھو کہ ہماری بوٹیاں پرندے نوچے لیے جاتے ہیں تب بھی تم اس جگہ سے نہ ٹلنا ۔ “ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی ۔ ابتدا ءً مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں ابتری پھیل گئی ۔ لیکن اس ابتدائی کامیابی کو کامل فتح کی حد تک پہنچانے کے بجائے مسلمان مال غنیمت کی طمع سے مغلوب ہوگئے اور انہوں نے دشمن کے لشکر کو لوٹنا شروع کر دیا ۔ ادھر جن تیر اندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عقب کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھا ، انہوں نے جو دیکھا کہ دشمن بھاگ نکلا ہے اور غنیمت لٹ رہی ہے ، تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر غنیمت کی طرف لپکے ۔ حضرت عبداللہ بن جبیر نے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تاکیدی حکم یاد دلا کر بہتیرا روکا مگر چند آدمیوں کے سوا کوئی نہ ٹھیرا ۔ اس موقع سے خالد بن ولید نے جو اس وقت لشکر کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے ، بر وقت فائدہ اٹھایا اور پہاڑی کا چکر کاٹ کر پہلو کے درہ سے حملہ کر دیا ۔ عبداللہ بن جبیر نے جن کے ساتھ صرف چند آدمی رہ گئے تھے ، اس حملہ کو روکنا چاہا مگر مدافعت نہ کرسکے اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا ۔ دوسری طرف جو دشمن بھاگ گئے تھے وہ بھی پلٹ کر حملہ آور ہو گئے ۔ اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ گیا اور مسلمان اس غیر متوقع صورت حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ان کا ایک بڑا حصہ پراگندہ ہو کر بھاگ نکلا ۔ تاہم چند بہادر سپاہی ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے ۔ اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اڑ گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ۔ اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے ہوش و حواس بھی گم کر دیے اور باقی ماندہ لوگ بھی ہمت ہار کر بیٹھ گئے ۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد و پیش صرف دس بارہ جاں نثار رہ گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود زخمی ہو چکے تھے ۔ شکست کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہ رہی تھی ۔ لیکن عین وقت پر صحابہ کو معلوم ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں ، چنانچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بسلامت پہاڑی کی طرف لے گئے ۔ اس موقع پر یہ ایک معما ہے جو حل نہیں ہو سکا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے کفار مکہ کو خود بخود واپس پھیر دیا ۔ مسلمان اس قدر پراگندہ ہو چکے تھے کہ ان کا پھر مجتمع ہو کر باقاعدہ جنگ کرنا مشکل تھا ۔ اگر کفار اپنی فتح کو کمال تک پہنچانے پر اصرار کرتے تو ان کی کامیابی بعید نہ تھی ۔ مگر نہ معلوم کس طرح وہ آپ ہی آپ میدان چھوڑ کر واپس چلے گئے ۔
غزوہ احد کی افتاد یہ احد کے واقعہ کا ذکر ہے بعض مفسرین نے اسے جن خندق کا قصہ بھی کہا ہے لیکن ٹھیک یہ ہے کہ واقعہ جنگ احد کا ہے جو سن 3 ہجری 11 شوال بروز ہفتہ پیش آیا تھا ، جنگ بدر میں مشرکین کو کامل شکست ہوئی تھی انکے سردار موت کے گھاٹ اترے تھے ، اب اس کا بدلہ لینے کیلئے مشرکین نے بڑی بھاری تیاری کی تھی وہ تجارتی مال جو بدر والی لڑائی کے موقعہ پر دوسرے راستے سے بچ کر آگیا تھا وہ سب اس لڑائی کیلئے روک رکھا تھا اور چاروں طرف سے لوگوں کو جمع کرکے تین ہزار کا ایک لشکر جرار تیار کیا اور پورے سازو سامان کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کی ، ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی نماز کے بعد مالک بن عمرو کے جنازے کی نماز پڑھائی جو قبیلہ بنی النجار میں سے تھے پھر لوگوں سے مشورہ کیا کہ ان کی مدافعت کی کیا صورت تمہارے نزدیک بہتر ہے؟ تو عبداللہ بن ابی نے کہا کہ ہمیں مدینہ سے باہر نہ نکلنا چاہئے اگر وہ آئے اور ٹھہرے تو گویا ہمارے جیل خانہ میں آگئے رکے اور کھڑے رہیں اور اگر مدینہ میں گھسے تو ایک طرف سے ہمارے بہادروں کی تلواریں ہوں گی دوسری جانب تیر اندازوں کے بےپناہ تیر ہوں گے پھر اوپر سے عورتوں اور بچوں کی سنگ باری ہو گی اور اگر یونہی لوٹ گئے تو بربادی اور خسارے کے ساتھ لوٹیں گے لیکن اس کے برخلاف بعض صحابہ جو جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے ان کی رائے تھی کہ مدینہ کے باہر میدان میں جا کر خوب دل کھول کر ان کا مقابلہ کرنا چاہئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے اور ہتھیار لگا کر باہر آئے ان صحابہ کو اب خیال ہوا کہ کہیں ہم نے اللہ کے نبی کی خلاف منشاء تو میدان کی لڑائی پر زور نہیں دیا اس لئے یہ کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہیں ٹھہر کر لڑنے کا ارادہ ہو تو یونہی کیجئے ہماری جانب سے کوئی اصرار نہیں ، آپ نے فرمایا اللہ کے نبی کو لائق نہیں کہ وہ ہتھیار پہن کر اتارے اب تو میں نہ لوٹوں گا جب تک کہ وہ نہ جائے جو اللہ عزوجل کو منظور ہو چنانجہ ایک ہزار کا لشکر لے کر آپ مدینہ شریف سے نکل کھڑے ہوئے ، شوط پر پہنچ کر اس منافق عبداللہ بن ابی نے دغا بازی کی اور اپنی تین سو کی جماعت کو لے کر واپس مڑ گیا یہ لوگ کہنے لگے ہم جانتے ہیں کہ لڑائی تو ہونے کی نہیں خواہ مخواہ زحمت کیوں اٹھائیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور صرف سات سو صحابہ کرام کو لے کر میدان میں اترے اور حکم دیا کہ جب تک میں نہ کہوں لڑائی شروع نہ کرنا پچاس تیر انداز صحابیوں کو الگ کر کے ان کا امیر حضرت عبداللہ بن جبیر کو بنایا اور ان سے فرما دیا کہ پہاڑی پر چڑھ جاؤ اور اس بات کا خیال رکھو کہ دشمن پیچھے سے حملہ آور نہ ہو دیکھو ہم غالب آ جائیں یا ( اللہ نہ کرے ) مغلوب ہو جائیں تم ہرگز اپنی جگہ سے نہ ہٹنا ، یہ انتظامات کر کے خود آپ بھی تیار ہو گئے دوہری زرہ پہنی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جھنڈا دیا آج چند لڑکے بھی لشکر محمدی میں نظر آتے تھے یہ چھوٹے سپاہی بھی جانبازی کیلئے ہمہ تن مستعد تھے بعض اور بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ لیا تھا انہیں جنگ خندق کے لشکر میں بھرتی کیا گیا جنگ خندق اس کے دو سال بعد ہوئی تھی ، قریشی کا لشکر بڑے ٹھاٹھے سے مقابلہ پر آڈٹا یہ تین ہزار سپاہیوں کا گروہ تھا ان کے ساتھ دو سو کوتل گھوڑے تھے جنہیں موقعہ پر کام آنے کیلئے ساتھ رکھا تھا ان کے داہنے حصہ پر خالد بن ولید تھا اور بائیں حصہ پر عکرمہ بن ابو جہل تھا ( یہ دونوں سردار بعد میں مسلمان ہو گئے تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) ان کا جھنڈے بردار قبیلہ بنو عبدالدار تھا ، پھر لڑائی شروع ہوئی جس کے تفصیلی واقعات انہی آیتوں کی موقعہ بہ موقعہ تفسیر کے ساتھ آتے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ الغرض اس آیت میں اسی کا بیان ہو رہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف سے نکلے اور لوگوں کو لڑائی کے مواقعہ کی جگہ مقرر کرنے لگے میمنہ میسرہ لشکر کا مقرر کیا اللہ تعالیٰ تمام باتوں کو سننے والا اور سب کے دلوں کے بھید جاننے والا ہے ، روایتوں میں یہ آچکا ہے کہ حضور علیہ السلام جمعہ کے دن مدینہ شریف سے لڑائی کیلئے نکلے اور قرآن فرماتا ہے صبح ہی صبح تم لشکریوں کی جگہ مقرر کرتے تھے تو مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے دن تو جا کر پڑاؤ ڈال دیا باقی کاروائی ہفتہ کی صبح شروع ہوئی ۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہمارے بارے میں یعنی بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ تمہارے دو گروہوں بزدلی کا ارادہ کیا تھا گو اس میں ہماری ایک کمزوری کا بیان ہے لیکن ہم اپنے حق میں اس آیت کو بہت بہتر جانتے ہیں کیونکہ اس میں یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ اللہ ان دونوں کا ولی ہے پھر فرمایا کہ دیکھو میں نے بدر والے دن بھی تمہیں غالب کیا حالانکہ تم سب ہی کم اور بےسرد سامان تھے ، بدر کی لڑائی سن 2 ہجری 17 رمضان بروز جمعہ ہوئی تھی ۔ اسی کا نام یوم الفرقان رکھا گیا اس دن اسلام اور اہل اسلام کی عزت ملی شرک برباد ہوا محل شرک ویران ہوا حالانکہ اس دن مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے ان کے پاس صرف دو گھوڑے تھے فقط ستر اونٹ تھے باقی سب پیدل تھے ہتھیار بھی اتنے کم تھے کہ گویا نہ تھے اور دشمن کی تعداد اس دن تین گنہ تھی ایک ہزار میں کچھ ہی کم تھے ہر ایک زرہ بکتر لگائے ہوئے ضرورت سے زیادہ وافر ہتھیار عمدہ عمدہ کافی سے زیادہ مالداری گھوڑے نشان زدہ جن کو سونے کے زیور پہنائے گئے تھے اس موقعہ پر اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت اور غلبہ دیا حالات کے بارے میں ظاہر و باطن وحی کی اپنے نبی اور آپ کے ساتھیوں کو سرخرو کیا اور شیطان اور اس کے لشکریوں کو ذلیل و خوار کیا اب اپنے مومن بندوں اور جنتی لشکریوں کو اس آیت میں یہ احسان یاد دلاتا ہے کہ تمہاری تعداد کی کمی اور ظاہری اسباب کی غیر موجودگی کے باوجود تم ہی کو غالب رکھا تا کہ تم معلوم کر لو کہ غلبہ ظاہری اسباب پر موقوف نہیں ، اسی لئے دوسری آیت میں صاف فرما دیا کہ جنگ حنین میں تم نے ظاہری اسباب پر نظر ڈالی اور اپنی زیادتی دیکھ کر خوش ہوئے لیکن اس زیادتی تعداد اور اسباب کی موجودگی نے تمہیں کچھ فائدہ نہ دیا ، حضرت عیاض اشعری فرماتے ہیں کہ جنگ یرموک میں ہمارے پانچ سردار تھے حضرت ابو عبیدہ ، حضرت یزید بن ابو سفیان حضرت ابن حسنہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عیاض اور خلیفتہ المسلمین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم تھا کہ لڑائی کے وقت حضرت ابو عبیدہ سردار ہوں گے اس لڑائی میں ہمیں چاروں طرف سے شکست کے آثار نظر آنے لگے تو ہم نے خلیفہ وقت کو خط لکھا کہ ہمیں موت نے گھیر رکھا ہے امداد کیجئے ، فاروق کا مکتوب گرامی ہماری گزارش کے جواب میں آیا جس میں تحریر تھا کہ تمہارا طلب امداد کا خط پہنچائیں تمہیں ایک ایسی ذات بتاتا ہوں جو سب سے زیادہ مددگار اور سب سے زیادہ مضبوط لشکر والی ہے وہ ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے جس نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد بدر والے دن کی تھی بدری لشکر تو تم سے بہت ہی کم تھا میرا یہ خط پڑھتے ہی جہاد شروع کر دو اور اب مجھے کچھ نہ لکھنا نہ کچھ پوچھنا ، اس خط سے ہماری جراتیں بڑھ گئیں ہمتیں بلند ہو گئیں پھر ہم نے جم کر لڑنا شروع کیا الحمد اللہ دشمن کو شکست ہوئی اور وہ بھاگے ہم نے بارہ میل تک انکا تعاقب کیا بہت سا مال غنیمت ہمیں ملا جو ہم نے آپس میں بانٹ لیا پھر حضرت ابو عبیدہ کہنے لگے میرے ساتھ دوڑ کون لگائے گا ؟ ایک نوجوان نے کہا اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں حاضر ہوں چنانچہ دوڑنے میں وہ آگے نکل گئے میں نے دیکھا ان کی دونوں زلفیں ہوا میں اڑ رہی تھیں اور وہ اس نوجوان کے پیچھے گھوڑا دوڑائے چلے جا رہے تھے ، بدر بن نارین ایک شخص تھا اسکے نام سے ایک کنواں مشہور تھا اور اس میدان کا جس میں یہ کنواں تھا یہی نام ہو گیا تھا بدر کی جنگ بھی اسی نام سے مشہور ہو گئی یہ جگہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے پھر فرمایا کہ اللہ سے ڈرتے رہا کرو تا کہ شکر کی توفیق ملے اور اطاعت گزاری کر سکو ۔