Surah

Information

Surah # 40 | Verses: 85 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 60 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 56, 57, from Madina
رَفِيۡعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الۡعَرۡشِ‌ ۚ يُلۡقِى الرُّوۡحَ مِنۡ اَمۡرِهٖ عَلٰى مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ لِيُنۡذِرَ يَوۡمَ التَّلَاقِ ۙ‏ ﴿15﴾
بلند درجوں والا عرش کا مالک وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تاکہ ملاقات کے دن ڈرائے ۔
رفيع الدرجت ذو العرش يلقي الروح من امره على من يشاء من عباده لينذر يوم التلاق
[He is] the Exalted above [all] degrees, Owner of the Throne; He places the inspiration of His command upon whom He wills of His servants to warn of the Day of Meeting.
Buland darjon wala arash ka malik woh apnay bandon mein say jiss per chahata hai wahee nazil kerta farmata hai takay woh mulaqat kay din say daraye.
وہ اونچے درجوں والا ، عرش کا مالک ہے ۔ وہ اپنے بندوں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح ( یعنی وحی ) نازل کردیتا ہے تاکہ ملاقات کے اس دن سے ( لوگوں کو ) خبردار کرے )
بلند درجے دینے والا ( ف۳۱ ) عرش کا مالک ایمان کی جان وحی ڈالتا ہے اپنے حکم سے اپنے بندوں میں جس پر چاہے ( ف۳۲ ) کہ وہ ملنے کے دن سے ڈرائے ( ف۳۳ )
وہ بلند درجوں والا 23 ، مالک عرش ہے 24 ۔ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح نازل کر دیتا ہے 25 تاکہ وہ ملاقات کے دن 26 سے خبردار کر دے ۔
درجات بلند کرنے والا ، مالکِ عرش ، اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے روح ( یعنی وحی ) اپنے حکم سے القاء فرماتا ہے تاکہ وہ ( لوگوں کو ) اکٹھا ہونے والے دن سے ڈرائے
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :23 یعنی تمام موجودات سے اس کا مقام بدرجہا بلند ہے ۔ کوئی ہستی بھی جو اس کائنات میں موجود ہے ، خواہ وہ کوئی فرشتہ ہو یا نبی یا ولی ، یا اور کوئی مخلوق ، اس کا مقام دوسری مخلوقات کے مقابلے میں چاہے کتنا ہی ارفع و اشرف ہو ، مگر اللہ تعالیٰ کے بلند ترین مقام سے اس کے قریب ہونے تک کا تصور نہیں کیا جا سکتا کجا کہ خدائی صفات و اختیارات میں اس کے شریک ہونے کا گمان کیا جا سکے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :24 یعنی ساری کائنات کا بادشاہ و فرمانروا ہے ۔ کائنات کے تخت سلطنت کا مالک ہے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم ، صفحات 36 ۔ 262 ۔ 441 ۔ جلد سوم ، ص 87 ) سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :25 روح سے مراد وحی اور نبوت ہے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم ، صفحات 524 ۔ 639 ) اور یہ ارشاد کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے یہ روح نازل کرتا ہے ، اس معنی میں ہے کہ اللہ کے فضل پر کسی کا اجارہ نہیں ہے ۔ جس طرح کوئی شخص یہ اعتراض کرنے کا حق نہیں رکھتا کہ فلاں شخص کو حسن کیوں دیا گیا اور فلاں شخص کو حافظہ یا ذہانت کی غیر معمولی قوت کیوں عطا کی گئی ، اسی طرح کسی کو یہ اعتراض کرنے کا بھی حق نہیں ہے کہ منصب نبوت کے لیے فلاں شخص ہی کو کیوں چنا گیا اور جسے ہم چاہتے تھے اسے کیوں نہ نبی بنایا گیا ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :26 یعنی جس روز تمام انسان اور جن اور شیاطین بیک وقت اپنے رب کے سامنے جمع ہوں گے اور ان کے اعمال کے سارے گواہ بھی حاضر ہوں گے ۔
روز قیامت سب اللہ کے سامنے ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی کبریائی اور عظمت اور اپنے عرش کی بڑائی اور وسعت بیان فرماتا ہے ۔ جو تمام مخلوق پر مثل چھت کے چھایا ہوا ہے جیسے ارشاد ہے ( مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ Ǽ۝ۭ ) 70- المعارج:3 ) ، یعنی وہ عذاب اللہ کی طرف سے ہو گا جو سیڑھیوں والا ہے ۔ کہ فرشتے اور روح اس کے پاس چڑھ کر جاتے ہیں ۔ ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے اور اس بات کا بیان انشاء اللہ آگے آئے گا کہ یہ دوری ساتویں زمین سے لے کر عرش تک کی ہے ، جیسے سلف و خلف کی ایک جماعت کا قول ہے اور یہی راجح بھی ہے ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ عرش سرخ رنگ یاقوت کا ہے جس کے دو کناروں کی وسعت پچاس ہزار سال کی ہے اور جس کی اونچائی ساتویں زمین سے پچاس ہزار سال کی ہے اور اس سے پہلے اس حدیث میں جس میں فرشتوں کا عرش اٹھانا بیان ہوا ہے یہ بھی گذر چکا ہے کہ ساتوں آسمانوں سے بھی وہ بہت بلند اور بہت اونچا ہے وہ جس پر چاہے وحی بھیجے ۔ جیسے ( يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ Ą۝ ) 16- النحل:2 ) ، وہ فرشتوں کو وحی دے کر اپنے حکم سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں مجھ سے ڈرتے رہو اور جگہ فرمان ہے ( وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٩٢؀ۭ ) 26- الشعراء:192 ) یعنی یہ قرآن تمام جہانوں کے رب کا اتارا ہوا ہے ۔ جسے معتبر فرشتے نے تیرے دل پر اتارا ہے ۔ تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے ۔ یہاں بھی یہی فرمایا کہ وہ ملاقات کے دن سے ڈرا دے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ بھی قیامت کا ایک نام ہے جس سے اللہ نے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے ۔ جس میں حضرت آدم خود اور ان کی اولاد میں سے سب سے آخری بچہ ایک دوسرے سے مل لے گا ۔ ابن زید فرماتے ہیں بندے اللہ سے ملیں گے ۔ قتادہ فرماتے ہیں آسمان والے اور زمین والے آپس میں ملاقات کریں گے ۔ خالق و مخلوق ، ظالم و مظلوم ملیں گے ۔ مقصد یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے سے ملاقات کرے گا ۔ بلکہ عامل اور اس کا عمل بھی ملے گا ۔ آج سب اللہ کے سامنے ہوں گے ۔ بالکل ظاہر باہر ہوں گے ، چھپنے کی تو کہاں سائے کی جگہ بھی کوئی نہ ہو گی ۔ سب اس کے آمنے سامنے موجود ہوں گے ۔ اس دن خود اللہ فرمائے گا کہ آج بادشاہت کس کی ہے؟ کون ہو گا جو جواب تک دے؟ پھر خود ہی جواب دے گا کہ اللہ اکیلے کی جو ہمیشہ واحد واحد ہے اور سب پر غالب و حکمراں ہے ۔ پہلے حدیث گذر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو لپیٹ کر اپنے ہاتھ میں لے لے گا اور فرمائے گا ۔ میں بادشاہ ہوں ، میں جبار ہوں متکبر ہوں ۔ زمین کے بادشاہ اور جبار اور متکبر لوگ آج کہاں ہیں؟ صور کی حدیث میں ہے کہ اللہ عزوجل جب تمام مخلوق کی روح قبض کر لے گا ۔ اور اس وحدہ لاشریک لہ کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے گا ۔ اس وقت تین مرتبہ فرمائے گا آج ملک کس کا ہے؟ پھر خود ہی جواب دے گا اللہ اکیلے غالب کا ۔ یعنی اس کا جو واحد ہے اس کا جو ہر چیز پر غالب ہے جس کی ملکیت میں ہر چیز ہے ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ قیامت کے قائم ہونے کے وقت ایک منای ندا کرے گا کہ لوگو! قیامت آ گئی جسے مردے زندے سب سنیں گے ۔ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول اجلال فرمائے گا اور کہے گا آج کس کے لئے ملک ہے صرف اللہ اکیلے غلبہ والے کے لئے ، پھر اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا بیان ہو رہا ہے کہ ذرا سا بھی ظلم اس دن نہ ہو گا بلکہ نیکیاں دس دس گنی کر کے ملیں گی اور برائیاں اتنی ہی رکھی جائیں گی ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اے میرے بندوں میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر بھی حرام کر لیا ہے اور تم پر بھی حرام کر دیا ہے ۔ پس تم میں سے کوئی کسی پر ظلم نہ کرے آخر میں ہے اے میرے بندو یہ تو تمہارے اپنے اعمال ہیں ۔ جن پر میں نگاہ رکھتا ہوں اور جن کا پورا بدلہ دوں گا ۔ پس جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے سوا پائے وہ اپنے تئیں ہی ملامت کرے ۔ پھر اپنے جلد حساب لینے کو بیان فرمایا کہ ساری مخلوق سے حساب لینا اس پر ایسا ہے جیسے ایک شخص کا حساب لینا جیسے ارشاد باری ہے ( مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ 28؀ ) 31- لقمان:28 ) یعنی تم سب کا پیدا کرنا اور تم سب کو مرنے کے بعد زندہ کر دینا میرے نزدیک ایک شخص کے پیدا کرنے اور زندہ کر دینے کی مانند ہے اور آیت میں ہے اللہ عزوجل کا فرمان ہے ( وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ 50؀ ) 54- القمر:50 ) یعنی ہمارے حکم کے ساتھ ہی کام ہو جاتا ہے اتنی دیر میں جیسے کسی نے آنکھ بند کر کے کھول لی ۔