The Day they come forth nothing concerning them will be concealed from Allah . To whom belongs [all] sovereignty this Day? To Allah , the One, the Prevailing.
جس دن وہ سب کھل کر سامنے آجائیں گے ، اللہ سے ان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوگی ۔ ( کہاجائے گا : ) کس کی بدشاہی ہے آج؟ ( جواب ایک ہی ہوگا کہ : ) صرف اللہ کی جو واحد و قہار ہے
وہ دن جبکہ سب لوگ بے پردہ ہوں گے ، اللہ سے ان کی کوئی بات بھی چھپی ہوئی نہ ہوگی ۔ ( اس روز پکار کر پوچھا جائے گا ) آج بادشاہی کس کی ہے؟ 27 ( سارا عالم پکار اٹھے گا ) اللہ واحد قہار کی ۔
جس دن وہ سب ( قبروں سے ) نکل پڑیں گے اور ان ( کے اعمال ) سے کچھ بھی اللہ پر پوشیدہ نہ رہے گا ، ( ارشاد ہوگا: ) آج کس کی بادشاہی ہے؟ ( پھر ارشاد ہوگا: ) اللہ ہی کی جو یکتا ہے سب پر غالب ہے
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :27
یعنی دنیا میں تو بہت سے بر خود غلط لوگ اپنی بادشاہی و جباری کے ڈنکے پیٹتے رہے ، اور بہت سے احمق ان کی بادشاہیاں اور کبریائیاں مانتے رہے ، اب بتاؤ کہ بادشاہی فی الواقع کس کی ہے؟ اختیارات کا اصل مالک کون ہے؟ اور حکم کس کا چلتا ہے؟ یہ ایسا مضمون ہے جسے اگر کوئی شخص گوش ہوش سے سنے تو خواہ وہ کتنا ہی بڑا بادشاہ یا آمر مطلق بنا بیٹھا ہو ، اس کا زہرہ آب ہو جائے اور ساری جباریت کی ہوا اس کے دماغ سے نکل جائے ۔ اس موقع پر تاریخ کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ سامانی خاندان کا فرمانروا انصر بن احمد ( 331 ۔ 301 ) جب نیشاپور میں داخل ہوا تو اس نے ایک دربار منعقد کیا اور تخت پر بیٹھنے کے بعد فرمائش کی کہ کاروائی کا افتتاح قرآن مجید کی تلاوت سے ہو ۔ یہ سن کر ایک بزرگ آگے بڑھے اور انہوں نے یہی رکوع تلاوت کیا ۔ جس وقت وہ اس آیت پر پہنچے تو نصر پر ہیبت طاری ہو گئی ۔ لرزتا ہوا تخت سے اترا ، تاج سر سے اتار کر سجدے میں گر گیا اور بولا اے رب ، بادشاہی تیری ہی ہے نہ کہ میری ۔