سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :28
یعنی کسی نوعیت کا ظلم بھی نہ ہو گا ۔ واضح رہے کہ جزاء کے معاملہ میں ظلم کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ آدمی اجر کا مستحق ہو اور وہ اس کو نہ دیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ وہ جتنے اجر کا مستحق ہو اس سے کم دیا جائے ۔ تیسرے یہ کہ وہ سزا کا مستحق نہ ہو مگر اسے سزا دے ڈالی جائے ۔ چوتھے یہ کہ جو سزا کا مستحق ہو اسے سزا نہ دی جائے ۔ پانچویں یہ کہ جو سزا کا مستحق ہو اسے زیادہ سزا دے دی جائے ۔ چھٹے یہ کہ مظلوم کا منہ دیکھتا رہ جائے اور ظالم اس کی آنکھوں کے سامنے صاف بری ہو کر نکل جائے ۔ ساتویں یہ کہ ایک کے گناہ میں دوسرا پکڑ لیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ان تمام نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کا ظلم بھی اس کی عدالت میں نہ ہونے پائے گا ۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :29
مطلب یہ ہے کہ اللہ کو حساب لینے میں کوئی دیر نہیں لگے گی ۔ وہ جس طرح کائنات کی ہر مخلوق کو بیک وقت رزق دے رہا ہے اور کسی کی رزق رسانی کے انتظام میں اس کو ایسی مشغولیت نہیں ہوتی کہ دوسروں کو رزق دینے کی اسے فرصت نہ ملے ، وہ جس طرح کائنات کی ہر چیز کو بیک وقت دیکھ رہا ہے ، ساری آوازوں کو بیک وقت سن رہا ہے ، تمام چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے معاملات کی بیک وقت تدبیر کر رہا ہے ، اور کوئی چیز اس کی توجہ کو اس طرح جذب نہیں کر لیتی کہ اسی وقت وہ دوسری چیزوں کی طرف توجہ نہ کر سکے ، اسی طرح وہ ہر ہر فرد کا بیک وقت محاسبہ بھی کر لے گا اور ایک مقدمے کی سماعت کرنے میں اسے ایسی مشغولیت لاحق نہ ہو گی کہ اسی وقت دوسرے بے شمار مقدمات کی سماعت نہ کر سکے ۔ پھر اس کی عدالت میں اس بنا پر بھی کوئی تاخیر نہ ہو گی کہ واقعات مقدمہ کی تحقیق اور اس کے لیے شہادتیں فراہم ہونے میں وہاں کوئی مشکل پیش آئے ۔ حاکم عدالت براہ راست خود تمام حقائق سے واقف ہو گا ۔ ہر فریق مقدمہ اس کے سامنے بالکل بے نقاب ہو گا ۔ اور واقعات کی کھلی کھلی ناقابل انکار شہادتیں چھوٹی سے چھوٹی جزئی تفصیلات تک کے ساتھ بلا تاخیر پیش ہو جائیں گی ۔ اس لیے ہر مقدمے کا فیصلہ جھٹ پٹ ہو جائے گا ۔