Surah

Information

Surah # 40 | Verses: 85 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 60 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 56, 57, from Madina
وَاَنۡذِرۡهُمۡ يَوۡمَ الۡاٰزِفَةِ اِذِ الۡقُلُوۡبُ لَدَى الۡحَـنَاجِرِ كٰظِمِيۡنَ ؕ مَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ حَمِيۡمٍ وَّلَا شَفِيۡعٍ يُّطَاعُ ؕ‏ ﴿18﴾
اور انہیں بہت ہی قریب آنے والی ( قیامت سے ) آگاہ کر دیجئے جب کہ دل حلق تک پہنچ جائیں گے اور سب خاموش ہونگے ظالموں کا نہ کوئی دلی دوست ہوگا نہ سفارشی ، کہ جس کی بات مانی جائے گی ۔
و انذرهم يوم الازفة اذ القلوب لدى الحناجر كظمين ما للظلمين من حميم و لا شفيع يطاع
And warn them, [O Muhammad], of the Approaching Day, when hearts are at the throats, filled [with distress]. For the wrongdoers there will be no devoted friend and no intercessor [who is] obeyed.
Aur enhen boht hi qareeb anay wali ( qayamat say ) aagah kerdijiye jab kay dil halaq tak phonch jayen gay aur sab khamosh hongay zalimon ka na koi dili dost hoga na sifarshi kay jiss ki baat mani jaye gi.
۔ ( اے پیغمبر ! ) ان لوگوں کو ایک ایسی مصیبت کے دن سے ڈراؤ جو قریب آنے والی ہے ، جب لوگوں کے کلیجے گھٹ گھٹ کر منہ کو آجائیں گے ، ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی ایسا سفارشی جس کی بات مانی جائے
اور انہیں ڈراؤ اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے ( ف۳۹ ) جب دل گلوں کے پاس آجائیں گے ( ف٤۰ ) غم میں بھرے ، اور ظالموں کا نہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے ( ف٤۱ )
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ڈرا دو ان لوگوں کو اس دن سے جو قریب آ لگا ہے 30 ۔ جب کلیجے منہ کو آ رہے ہوں گے اور لوگ چپ چاپ غم کے گھونٹ پیے کھڑے ہونگے ۔ ظالموں کا نہ کوئی مشفق دوست ہوگا 31 اور نہ کوئی شفیع جس کی بات مانی جائے 32 ۔
اور آپ ان کو قریب آنے والی آفت کے دن سے ڈرائیں جب ضبطِ غم سے کلیجے منہ کو آئیں گے ۔ ظالموں کے لئے نہ کوئی مہربان دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائے
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :30 قرآن مجید میں لوگوں کو بار بار یہ احساس دلایا گیا ہے کہ قیامت ان سے کچھ دور نہیں ہے بلکہ قریب ہی لگی کھڑی ہے اور ہر لمحہ آسکتی ہے ۔ کہیں فرمایا اَتیٰ اَمْرُ اللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ ( النحل:1 ) ۔ کہیں ارشاد ہوا اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ ( الانبیاء :1 ) کہیں متنبہ کیا گیا اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ( القمر:1 ) ۔ کہیں فرمایا گیا اَزِفَتِ الْاٰزِفَۃُ لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اللہِ کَاشِفَۃٌ ( النجم:57 ) ۔ ان ساری باتوں سے مقصود لوگوں کو متنبہ کرنا ہے کہ قیامت کو دور کی چیز سمجھ کر بے خوف نہ رہیں اور سنبھلنا ہے تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر سنبھل جائیں ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :31 اصل میں لفظ حَمَیْم استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد کسی شخص کا ایسا دوست ہے جو اس کو پٹتے دیکھ کر جوش میں آئے اور اسے بچانے کے لیے دوڑے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :32 یہ بات برسبیل تنزل ، کفار کے عقیدہ شفاعت کی تردید کرتے ہوئے فرمائی گئی ہے ۔ حقیقت میں تو وہاں ظالموں کا کوئی شفیع سرے سے ہو گا ہی نہیں ، کیونکہ شفاعت کی اجازت اگر مل بھی سکتی ہے تو اللہ کے نیک بندوں کو مل سکتی ہے ، اور اللہ کے نیک بندے کبھی کافروں اور مشرکوں اور فساق و فجار کے دوست نہیں ہو سکتے کہ وہ انہیں بچانے کے لیے سفارش کا خیال بھی کریں ۔ لیکن چونکہ کفار و مشرکین اور گمراہ لوگوں کا بالعموم یہ عقیدہ رہا ہے ، اور آج بھی ہے ، کہ ہم جن بزرگوں کے دامن گرفتہ ہیں وہ کبھی ہمیں دوزخ میں نہ جانے دیں گے بلکہ اڑ کر کھڑے ہو جائیں گے اور بخشوا کر ہی چھوڑیں گے ، اس لیے فرمایا گیا کہ وہاں ایسا شفیع کوئی بھی نہ ہو گا جس کی بات مانی جائے اور جس کی سفارش اللہ کو لازماً قبول ہی کرنی پڑے ۔
اللہ علیم پر ہر چیز ظاہر ہے ۔ ازفہ قیامت کا ایک نام ہے ۔ اس لئے وہ بہت ہی قریب ہے جیسے فرمان ہے ( اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ 57؀ۚ ) 53- النجم:57 ) یعنی قریب آنے والی قریب ہو چکی ہے ، جس کا کھولنے والا بجز اللہ کے کوئی نہیں اور جگہ ارشاد ہے ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ Ǻ۝ ) 54- القمر:1 ) قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا اور فرمان ہے ( اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ Ǻ۝ۚ ) 21- الأنبياء:1 ) لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا اور فرمان ہے ( امر اللہ فلا تستعجلوہ ) اللہ کا امر آ چکا اس میں جلدی نہ کرو اور آیت میں ہے ( فَلَمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً سِيْۗـــــَٔتْ وُجُوْهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَقِيْلَ هٰذَا الَّذِيْ كُنْتُمْ بِهٖ تَدَّعُوْنَ 27؀ ) 67- الملك:27 ) جب اسے قریب دیکھ لیں گے تو کافروں کے چہرے سیاہ پڑ جائیں گے ۔ الغرض اسی نزدیکی کی وجہ سے قیامت کا نام ازفہ ہے ۔ اس وقت کلیجے منہ کو آ جائیں گے ۔ وہ خوف و ہراس ہو گا کہ کسی کا دل ٹھکانے نہ رہے گا ۔ سب پر غضب کا سناٹا ہو گا ۔ کسی کے منہ سے کوئی بات نہ نکلے گی ۔ کیا مجال کہ بے اجازت کوئی لب ہلا سکے ۔ سب رو رہے ہوں گے اور حیران و پریشان ہوں گے ۔ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ شرک کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ان کا آج کوئی دوست غمگسار نہ ہو گا جو انہیں کام آئے ۔ نہ شفیع اور سفارشی ہو گا جو ان کی شفاعت کے لئے زبان ہلائے ۔ بلکہ ہر بھلائی کے اسباب کٹ چکے ہوں گے ، اس اللہ کا علم محیط کل ہے ۔ تمام چھوٹی بڑی چھپی کھلی باریک موٹی اس پر یکساں ظاہر باہر ہیں ، اتنے بڑے علم والے سے جس سے کوئی چیز مخفی نہ ہو ہر شخص کو ڈرنا چاہئے اور کسی وقت یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ اس وقت وہ مجھ سے پوشیدہ ہے اور میرے حال کی اسے اطلاع نہیں ۔ بلکہ ہر وقت یہ یقین کر کے وہ مجھے دیکھ رہا ہے اس کا علم میرے ساتھ ہے اس کا لحاظ کرتا رہے اور اس کے رو کے ہوئے کاموں سے رکا رہے ۔ آنکھ جو خیانت کے لئے اٹھتی ہے گو بظاہر وہ امانت ظاہر کرے ۔ لیکن رب علیم پر وہ مخفی نہیں سینے کے جس گوشے میں جو خیال چھپا ہو اور دل میں جو بات پوشیدہ اٹھتی ہو اس کا اسے علم ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں اس آیت سے مراد وہ شخص ہے جو مثلاً کسی گھر میں گیا وہاں کوئی خوبصورت عورت ہے یا وہ آ جا رہی ہے یا تو یہ کن اکھیوں سے اسے دیکھتا ہے جہاں کسی کی نظر پڑی تو نگاہ پھیرلی اور جب موقعہ پایا آنکھ اٹھا کر دیکھ لیا پس خائن آنکھ کی خیانت کو اور اس کے دل کے راز کو اللہ علیم خوب جانتا ہے کہ اس کے دل میں تو یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو پوشیدہ عضو بھی دیکھ لے ۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں اس سے مراد آنکھ مارنا اشارے کرنا اور بن دیکھی چیز کو دیکھی ہوئی یا دیکھی ہوئی چیز کو ان دیکھی بتانا ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ۔ نگاہ جس نیت سے ڈالی جائے اللہ پر روشن ہے ۔ پھر سینے میں چھپا ہوا خیال کہ اگر موقعہ ملے اور بس ہو تو آیا یہ بدکاری سے باز رہے گا یا نہیں ۔ یہ بھی وہ جانتا ہے ۔ سدی فرماتے ہیں دلوں کے وسوسوں سے وہ آگاہ ہے ، وہ عدل کے ساتھ حکم کرتا ہے قادر ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی دے اور برائی کی سزا بری دے ۔ وہ سننے دیکھنے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ وہ بروں کو ان کی کرنے کی سزا اور بھلوں کو ان کی بھلائی کی جزا عنایت فرمائے گا ۔ جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں خواہ وہ بت اور تصویریں ہوں خواہ اور کچھ وہ چونکہ کسی چیز کے مالک نہیں ان کی حکومت ہی نہیں تو حکم اور فیصلے کریں گے ہی کیا ؟ اللہ اپنی مخلوق کے اقوال کو سنتا ہے ۔ ان کے احوال کو دیکھ رہا ہے جسے چاہے راہ دکھاتا ہے جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اس کا اس میں بھی سرا سر عدل و انصاف ہے ۔