Surah

Information

Surah # 40 | Verses: 85 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 60 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 56, 57, from Madina
وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلۡطٰنٍ مُّبِيۡنٍۙ‏ ﴿23﴾
اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو اپنی آیتوں اور کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا ۔
و لقد ارسلنا موسى بايتنا و سلطن مبين
And We did certainly send Moses with Our signs and a clear authority
Aur hum ney musa ( alh-e-salam ) ko apni aayaton aur khulli daleelon kay sath bheja.
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور بڑی واضح دلیل دے کر بھیجا تھا
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور روشن سند کے ساتھ بھیجا ،
ہم نے موسیٰ 35کو اپنی نشانیوں اور نمایاں سندِ ماموریت کے ساتھ بھیجا ۔ 36
اور بے شک ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کو اپنی نشانیوں اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :35 حضرت موسیٰ کے قصے کی دوسرے تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو جلد اول صفحات 75تا 79 ۔ 425 ۔ 459 ۔ جلد دوم 64 تا 88 ۔ 301 تا 310 ۔ 330 365 366 ۔ 370 ۔ 382 ۔ 383 ۔ 471 تا 474 ۔ 642 تا 649 ۔ جلد سوم ، 34 تا 40 ۔ 71 ۔ 72 ۔ 85 ۔ 88 تا 121 279 ۔ 280 ۔ 480 تا 498 ۔ 557 تا 560 ۔ 610 ۔ 613 تا 639 ۔ جلد چہارم ، سورہ احزاب ، آیت 69 ۔ الصافات ، آیات 114 تا 122 ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :36 یعنی ایسی صریح علامات کے ساتھ جن سے یہ امر مشتبہ نہیں رہ جاتا تھا کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ان کی پشت پر اللہ رب العٰلمین کی طاقت ہے ۔ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصے کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان پر ایک غائر نگاہ ڈالنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کونسی علامات تھیں جن کو یہاں ان کے مامور من اللہ ہونے کی کھلی سند قرار دیا جا رہا ہے ۔ اول تو یہ عجیب بات تھی کہ جو شخص چند سال پہلے فرعون کی قوم کے ایک آدمی کو قتل کر کے ملک سے فرار ہو گیا تھا اور جس کے وارنٹ نکلے ہوئے تھے وہ اچانک ایک لاٹھی لیے ہوئے سیدھا فرعون کے بھرے دربار میں درّانہ چلا آتا ہے اور دھڑلے کے ساتھ بادشاہ اور اس کے اعیان سلطنت کو مخاطب کر کے دعوت دیتا ہے کہ وہ اسے اللہ رب العا لمین کا نمائندہ تسلیم کر کے اس کی ہدایات پر عمل کریں ، اور کسی کو اس پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں ہوتی ۔ حالانکہ حضرت موسیٰ جس قوم سے تعلق رکھتے تھے وہ اس بری طرح غلامی کے جوتے تلے پس رہی تھی کہ اگر الزام قتل کی بنا پر ان کو فوراً گرفتار کر لیا جاتا تو اس بات کا کوئی اندیشہ نہ تھا کہ ان کی قوم بغاوت تو درکنار ، احتجاج ہی کے لیے زبان کھول سکے گی ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عصا اور ید بیضاء کے معجزے دیکھنے سے بھی پہلے فرعون اور اس کے اہل دربار محض حضرت موسیٰ کی آمد ہی سے مرعوب ہو چکے تھے اور پہلی نظر ہی میں انہیں محسوس ہو گیا تھا کہ یہ شخص کسی اور ہی طاقت کے بل بوتے پر آیا ہے ۔ پھر جو عظیم الشان معجزے پے در پے ان کے ہاتھ سے صادر ہوئے ان میں سے ہر ایک یہ یقین دلانے کے لیے کافی تھا کہ یہ جادو کا نہیں ، خدائی طاقت ہی کا کرشمہ ہے ۔ آخر کس جادو کے زور سے ایک لاٹھی فی الواقع اژدہا بن سکتی ہے؟ یا ایک پورے ملک میں قحط پڑ سکتا ہے؟ یا لاکھوں مربع میل کے علاقے میں ایک نوٹس پر طرح طرح کے طوفان آسکتے ہیں اور ایک نوٹس پر وہ ختم ہو سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے بیان کے مطابق فرعون اور اس کی سلطنت کے تمام ذمہ دار لوگ ، زبان سے چاہے انکار کرتے رہے ہوں ، مگر دل ان کے پوری طرح جان چکے تھے کہ حضرت موسیٰ فی الواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوئے ہیں ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی ۸٦تا۸۹ ، جلد سوم ، طہ ، حواشی ۲۹تا۵۳ ، الشعراء ، حواشی ۲۲تا٤۱ ، النمل ، حاشیہ ۱٦ ) ۔
فرعون کا بدترین حکم ۔ اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے کے لئے سابقہ رسولوں کے قصے بیان فرماتا ہے کہ جس طرح انجام کار فتح و ظفر ان کے ساتھ رہی اسی طرح آپ بھی ان کفار سے کوئی اندیشہ نہ کیجئے ۔ میری مدد آپ کے ساتھ ہے ۔ انجام کار آپ ہی کی بہتری اور برتری ہو گی جیسے کہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کا واقعہ آپ کے سامنے ہے کہ ہم نے انہیں دلائل و براہین کے ساتھ بھیجا ، قبطیوں کے بادشاہ فرعون کی طرف جو مصر کا سلطان تھا اور ہامان کی طرف جو اس کا وزیر اعظم تھا اور قارون کی طرف جو اس کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند تھا اور تاجروں کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا ۔ ان بدنصیبوں نے اللہ کے اس زبردست رسول کو جھٹلایا اور ان کی توہین کی اور صاف کہہ دیا کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے ۔ یہی جواب سابقہ امتوں کے بھی انبیاء علیہم السلام کو دیتے ہے ۔ جیسے ارشاد ہے ( كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ 52؀ۚ ) 51- الذاريات:52 ) ، یعنی اس طرح ان سے پہلے بھی جتنے رسول آئے سب سے ان کی قوم نے یہی کہا کہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے ۔ کیا انہوں نے اس پر کوئی متفقہ تجویز کر رکھی ہے؟ نہیں بلکہ دراصل یہ سب کے سب سرکش لوگ ہیں ، جب ہمارے رسول موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس حق لائے اور انہوں نے اللہ کے رسول کو ستانا اور دکھ دینا شروع کیا اور فرعون نے حکم جاری کر دیا اس رسول پر جو ایمان لائے ہیں ان کے ہاں جو لڑکے ہیں انہیں قتل کر دو اور جو لڑکیاں ہوں انہیں زندہ چھوڑ دو ، اس سے پہلے بھی وہ یہی حکم جاری کر چکا تھا ۔ اس لئے کہ اسے خوف تھا کہ کہیں موسیٰ پیدا نہ ہو جائیں یا اس لئے کہ بنی اسرائیل کی تعداد کم کر دے اور انہیں کمزور اور بےطاقت بنا دے اور ممکن ہے دونوں مصلحتیں سامنے ہوں اور ان کی گنتی نہ بڑھے اور یہ پست و ذلیل رہیں بلکہ انہیں خیال ہو کہ ہماری اس مصیبت کا باعث حضرت موسیٰ ہیں ۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں ایذاء دی گئی اور آپ کے تشریف لانے کے بعد بھی ہم ستائے گئے ۔ آپ نے جواب دیا تم جلدی نہ کرو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کو برباد کر دے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنائے پھر دیکھے ۔ کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ فرعون کا یہ حکم دوبارہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کا فریب اور ان کی یہ پالیسی کہ بنی اسرائیل فنا ہو جائیں بےفائدہ اور فضول تھی ۔ فرعون کا ایک بدترین قصد بیان ہو رہا ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنی قوم سے کہا مجھے چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کر ڈالوں گا وہ اگرچہ اپنے اللہ کو بھی اپنی مدد کے لئے پکارے مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر اسے زندہ چھوڑا گیا تو وہ تمہاے دین کو بدل دے گا تمہاری عادت و رسومات کو تم سے چھڑا دے گا اور زمین میں ایک فساد پھیلا دے گا ۔ اسی لئے عرب میں یہ مثل مشہو رہو گئی صار الرعن مذاکرا یعنی فرعون بھی واعظ بن گیا ۔ بعض قرأتوں میں بجائے ان یطھر کے یطھر ہے ، حضرت موسیٰ کو جب فرعون کا یہ بد ارادہ ملعوم ہوا تو آپ نے فرمایا میں اس کی اور اس جیسے لوگوں کی برائی سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں ۔ اے میرے مخاطب لوگو! میں ہر اس شخص کی ایذاء رسانی سے جو حق سے تکبر کرنے والا اور قیامت کے دن پر ایمان نہ رکھنے ولا ہو ، اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قوم سے خوف ہوتا تو آپ یہ دعا پڑھتے یعنی اے اللہ ان کی برائی سے ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اور ہم تجھ پر ان کے مقابلے میں بھروسہ کرتے ہیں ۔