Surah

Information

Surah # 40 | Verses: 85 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 60 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 56, 57, from Madina
وَقَالَ فِرۡعَوۡنُ ذَرُوۡنِىۡۤ اَقۡتُلۡ مُوۡسٰى وَلۡيَدۡعُ رَبَّهٗ‌ۚ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اَنۡ يُّبَدِّلَ دِيۡنَكُمۡ اَوۡ اَنۡ يُّظۡهِرَ فِى الۡاَرۡضِ الۡفَسَادَ‏ ﴿26﴾
اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ ( علیہ السلام ) کو مار ڈالوں اور اسے چاہیے کہ اپنے رب کو پکارے مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی ( بہت بڑا ) فساد برپا نہ کر دے ۔
و قال فرعون ذروني اقتل موسى و ليدع ربه اني اخاف ان يبدل دينكم او ان يظهر في الارض الفساد
And Pharaoh said, "Let me kill Moses and let him call upon his Lord. Indeed, I fear that he will change your religion or that he will cause corruption in the land."
Aur firaon ney kaha mujhay choro kay mein musa ( alh-e-salam ) ko maar dalon aur issay chahyey kay apnay rab ko pukaray mujhay to darr hai kay yeh kahen tumhara deen na badal dalay ya mulk mein koi ( boht bara ) fasad barpa na ker day.
اور فرعون نے کہا : لاؤ میں موسیٰ کو قتل ہی کر ڈالوں ، اور اسے چاہئے کہ اپنے رب کو پکار لے ۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا ، یا زمین میں فساد برپا کردے گا ۔
اور فرعون بولا ( ف۵۵ ) مجھے چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کروں ( ف۵٦ ) اور وہ اپنے رب کو پکارے ( ف۵۷ ) میں ڈرتا ہوں کہیں وہ تمہارا دین بدل دے ( ف۵۸ ) یا زمین میں فساد چمکائے ( ف۵۹ )
ایک روز 41 فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا چھوڑو مجھے ، میں اس موسیٰ کو قتل کیے دیتا ہوں 42 ، اور پکار دیکھے یہ اپنے رب کو ۔ مجھ اندیشہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا ، یا ملک میں فساد برپا کرے گا 43 ۔
اور فرعون بولا: مجھے چھوڑ دو میں موسٰی کو قتل کر دوں اور اسے چاہیے کہ اپنے رب کو بلا لے ۔ مجھے خوف ہے کہ وہ تمہارا دین بدل دے گا یا ملک ( مصر ) میں فساد پھیلا دے گا
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :41 یہاں سے جس واقعہ کا بیان شروع ہو رہا ہے وہ تاریخ بنی اسرائیل کا ایک نہایت اہم واقعہ ہے جسے خود بنی اسرائیل بالکل فراموش کر گئے ہیں ۔ بائیبل اور تَلْمود ، دونوں اس کے ذکر سے خالی ہیں ، اور دوسری اسرائیلی روایات میں بھی اس کا کوئی نام و نشان نہیں پایا جاتا ۔ اس قصے کو جو شخص بھی پڑھے گا ، بشرطیکہ وہ اسلام اور قرآن کے خلاف تعصب میں اندھا نہ ہو چکا ہو ، وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے گا کہ دعوت حق کے نقطۂ نظر سے یہ قصہ بہت بڑی قدر و قیمت رکھتا ہے ، اور بجائے خود یہ بات بعید از عقل و قیاس بھی نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ کی شخصیت ، ان کی تبلیغ ، اور ان کے ہاتھوں ظہور پذیر ہونے والے حیرت انگیز معجزات سے متاثر ہوکر خود فرعون کے اعیان سلطنت میں سے کوئی شخص دل ہی دل میں ایمان لے آیا ہو اور فرعون کو ان کے قتل پر آمادہ دیکھ کر وہ ضبط نہ کر سکا ہو ۔ لیکن مغربی مستشرقین ، علم و تحقیق کے لمبے چوڑے دعوؤں کے باوجود ، تعصب میں اندھے ہو کر جس طرح قرآن کی روشن صداقتوں پر خاک ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں مضمون موسیٰ کا مصنف اس قصے کے متعلق لکھتا ہے : قرآن کی یہ کہانی کہ فرعون کے دربار میں ایک مومن موسیٰ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے ، پوری طرح واضح نہیں ہے ( سورہ40 آیت 28 ) ۔ کیا ہمیں اس کا تقابل اس قصے سے کرنا چاہیے جو ہگادا میں بیان ہوا ہے اور جس کا مضمون یہ ہے کہ یتھرو نے فرعون کے دربار میں عفو سے کام لینے کا مشورہ دیا تھا ؟ گویا ان مدعیان تحقیق کے ہاں یہ بات تو طے شدہ ہے کہ قرآن کی ہر بات میں ضرور کیڑے ہی ڈالنے ہیں ۔ اب اگر اس کے کسی بیان پر حرف زنی کی کوئی بنیاد نہیں ملتی تو کم از کم یہی شوشہ چھوڑ دیا جائے کہ یہ قصہ پوری طرح واضح نہیں ہے ، اور چلتے چلتے یہ شک بھی پڑھنے والوں کے دل میں ڈال دیا جائے کہ ہَگّادا میں یتھرو کا جو قصہ حضرت موسیٰ کی پیدائش سے پہلے کا بیان ہوا ہے وہ کہیں سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سن لیا ہو گا ، اور اسے لا کر یہاں اس شکل میں بیان کر دیا ہو گا ۔ یہ ہے علمی تحقیق کا وہ انداز جو ان لوگوں نے اسلام اور قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں اختیار کر رکھا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :42 اس فقرے میں فرعون یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ گویا کچھ لوگوں نے اسے روک رکھا ہے جن کی وجہ سے وہ حضرت موسیٰ کو قتل نہیں کر رہا ہے ، ورنہ اگر وہ مانع نہ ہوتے تو وہ کبھی کا انہیں ہلاک کر چکا ہوتا ۔ حالانکہ دراصل باہر کی کوئی طاقت اسے روکنے والی نہ تھی ، اس کے اپنے دل کا خوف ہی اس کو اللہ کے رسول پر ہاتھ ڈالنے سے روکے ہوئے تھا ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :43 یعنی ، مجھے اس سے انقلاب کا خطرہ ہے ، اور اگر یہ انقلاب برپا نہ بھی کرتے تو کم از کم یہ خطرہ تو ہے ہی کہ اس کی کاروائیوں سے ملک میں فساد رونما ہو گا ، لہٰذا بغیر اس کے کہ یہ کوئی مستلزم سزائے موت جرم کرے ، محض تحفظ امن عام ( Maintenance of Public order ) کی خاطر اسے قتل کر دینا چاہیے ۔ رہی یہ بات کہ اس شخص کی ذات سے فی الواقع امن عام کو خطرہ ہے یا نہیں ، تو اس کے لیے صرف ہز میجسٹی کا اطمینان کافی ہے ۔ سرکار عالی اگر مطمئن ہیں کہ یہ خطرناک آدمی ہے تو مان لیا جانا چاہیے کہ واقعی خطرناک اور گردن زدنی ہے ۔ اس مقام پر دین بدل ڈالنے کا مطلب بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے جس کے اندیشے سے فرعون حضرت موسیٰ کو قتل کر دینا چاہتا تھا ۔ یہاں دین سے مراد نظام حکومت ہے اور فرعون کے قول کا مطلب یہ ہے کہ انی اخاف ان یغیر سلطانکم ( روح المعانی ، ج 24 ص 56 ) ۔ بالفاظ دیگر ، فرعون اور اس کے خاندان کے اقتدار اعلیٰ کی بنیاد پر مذہب و سیاست اور تمدن و معیشت کا جو نظام مصر میں چل رہا تھا وہ ملک کا دین تھا ، اور فرعون کو حضرت موسیٰ کی دعوت سے اسی دین کے بدل جانے کا خطرہ تھا ۔ لیکن ہر زمانے کے مکار حکمرانوں کی طرح اس نے بھی یہ نہیں کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ سے اقتدار نکل جانے کا خوف ہے اس لیے میں موسیٰ کو قتل کرنا چاہتا ہوں ، بلکہ صورت معاملہ کو اس نے اس طرح پیش کیا کہ لوگو ، خطرہ مجھے نہیں ، تمہیں لاحق ہے ، کیونکہ موسیٰ کی تحریک اگر کامیاب ہو گئی تو تمہارا دین بدل جائے گا ۔ مجھے اپنی فکر نہیں ہے ۔ میں تو تمہاری فکر میں گھلا جا رہا ہوں کہ میرے سایہ اقتدار سے محروم ہو کر تمہارا کیا بنے گا ۔ لہٰذا جس ظالم کے ہاتھوں یہ سایہ تمہارے سر سے اٹھ جانے کا اندیشہ ہے اسے قتل کر دینا چاہیے کیونکہ وہ ملک اور قوم کا دشمن ہے ۔