Surah

Information

Surah # 40 | Verses: 85 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 60 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 56, 57, from Madina
وَقَالَ مُوۡسٰٓى اِنِّىۡ عُذۡتُ بِرَبِّىۡ وَرَبِّكُمۡ مِّنۡ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا يُؤۡمِنُ بِيَوۡمِ الۡحِسَابِ‏ ﴿27﴾
موسٰی ( علیہ السلام ) نے کہا میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس تکبر کرنے والے شخص ( کی برائی ) سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا ۔
و قال موسى اني عذت بربي و ربكم من كل متكبر لا يؤمن بيوم الحساب
But Moses said, "Indeed, I have sought refuge in my Lord and your Lord from every arrogant one who does not believe in the Day of Account."
Musa ( alh-e-salam ) ney kaha mein apnay aur tumharay rab ki panah mein aata hun her uss takabbur kerney walay shaks ( ki buraee ) say jo roz-e-hisab per eman nahi rakhta.
اور موسیٰ نے کہا : میں نے تو ہر اس متکبر سے جو یوم حساب پر ایمان نہیں رکھتا ، اس کی پناہ لے لی ہے جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہاری بھی پروردگار ۔
اور موسیٰ نے ( ف٦۰ ) کہا میں تمہارے اور اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں ہر متکبر سے کہ حساب کے دن پر یقین نہیں لاتا ( ف٦۱ )
موسیٰ نے کہا میں نے تو ہر اس متکبر کے مقابلے میں جو یوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتا اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لے لی ہے 44 ۔ ع
اور موسٰی ( علیہ السلام ) نے کہا: میں اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لے چکا ہوں ، ہر متکبر شخص سے جو یومِ حساب پر ایمان نہیں رکھتا
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :44 یہاں دو برابر کے احتمال ہیں ، جن میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ۔ ایک احتمال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اس وقت دربار میں خود موجود ہوں ، اور فرعون نے ان کی موجودگی میں انہیں قتل کر دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہو ، اور حضرت نے اس کو اور اس کے درباریوں کو خطاب کر کے اسی وقت بر ملا یہ جواب دے دیا ہو ۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی غیر موجودگی میں فرعون نے اپنی حکومت کے ذمہ دار لوگوں کی کسی مجلس میں یہ خیال ظاہر کیا ہو ، اور اس گفتگو کی اطلاع آنجناب کو اہل ایمان میں سے کچھ لوگوں نے پہنچائی ہو ، اور اسے سن کر آپ نے اپنے پیروؤں کی مجلس میں یہ بات ارشاد فرمائی ہو ۔ ان دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو ، حضرت موسیٰ کے الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فرعون کی دھمکی ان کے دل میں ذرہ برابر بھی خوف کی کوئی کیفیت پیدا نہ کر سکی اور انہوں نے اللہ کے بھروسے پر اس کی دھمکی اسی کے منہ پر مار دی ۔ اس واقعہ کو جس موقع پر قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے ، اس سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی یہی جواب ان سب ظالموں کو ہے جو یوم الحساب سے بے خوف ہو کر آپ کو قتل کر دینے کی سازشیں کر رہے ہیں ۔