Surah

Information

Surah # 40 | Verses: 85 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 60 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 56, 57, from Madina
وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ ‌ۖ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ يَكۡتُمُ اِيۡمَانَهٗۤ اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ يَّقُوۡلَ رَبِّىَ اللّٰهُ وَقَدۡ جَآءَكُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ مِنۡ رَّبِّكُمۡ ؕ وَاِنۡ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيۡهِ كَذِبُهٗ ؕ وَاِنۡ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبۡكُمۡ بَعۡضُ الَّذِىۡ يَعِدُكُمۡ ۚ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِىۡ مَنۡ هُوَ مُسۡرِفٌ كَذَّابٌ‏ ﴿28﴾
اور ایک مومن شخص نے ، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھاکہا کہ کیا تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہو ، تو جس ( عذاب ) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں کچھ نہ کچھ تو تم پر آپڑے گا ، اللہ تعالٰی اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہوں ۔
و قال رجل مؤمن من ال فرعون يكتم ايمانه اتقتلون رجلا ان يقول ربي الله و قد جاءكم بالبينت من ربكم و ان يك كا ذبا فعليه كذبه و ان يك صادقا يصبكم بعض الذي يعدكم ان الله لا يهدي من هو مسرف كذاب
And a believing man from the family of Pharaoh who concealed his faith said, "Do you kill a man [merely] because he says, 'My Lord is Allah ' while he has brought you clear proofs from your Lord? And if he should be lying, then upon him is [the consequence of] his lie; but if he should be truthful, there will strike you some of what he promises you. Indeed, Allah does not guide one who is a transgressor and a liar.
Aur aik momin shaks ney ji firaon kay khandan mein say tha aur apna eman chupaye huyey tha kaha kay kiya tum aik shaks ko mehaz iss baat per qatal kertay ho kay woh kehta hai kay mera rab Allah hai aur tumharay rab ki taraf say daleelen ley ker aaya hai agar woh jhoota ho to uss ka jhoot ussi per hai aur agar woh sacha ho to jiss ( azab ) ka woh tum say wada ker raha hai uss mein say kuch na kuch to tum per aa paray ga Allah Taalaa uss ki rehbari nahi kerta jo hadd say guzar janey walay aur jhootay hon.
اور فرعون کے خاندان میں سے ایک مومن شخص جو ابھی تک اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا ( 6 ) بول اٹھا کہ کیا تم ایک شخص کو صرف اس لیے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا پروردگار اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے روشن دلیلیں لے کر آیا ہے ۔ اور اگر وہ جھوٹا ہی ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر پڑے گا ( 7 ) اور اگر سچا ہو تو جس چیز سے وہ تمہیں ڈرا رہا ہے اس میں کچھ تو تم پر آ ہی پڑے گی اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گذر جانے والا ( اور ) جھوٹ بولنے کا عادی ہو ۔
اور بولا فرعون والوں میں سے ایک مرد مسلمان کہ اپنے ایمان کو چھپاتا تھا کیا ایک مرد کو اس پر مارے ڈالتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور بیشک وہ روشن نشانیاں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے لائے ( ف٦۲ ) اور اگر بالفرض وہ غلط کہتے ہیں تو ان کی غلط گوئی کا وبال ان پر ، اور اگر وہ سچے ہیں تو تمہیں پہنچ جائے گا کچھ وہ جس کا تمہیں وعدہ دیتے ہیں ( ف٦۳ ) بیشک اللہ راہ نہیں دیتا اسے جو حد سے بڑھنے والا بڑا جھوٹا ہو ( ف٦٤ )
اس موقع پر آل فرعون میں سے ایک مومن شخص ، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا ، بول اٹھا : کیا تم ایک شخص کو صرف اس بنا پر قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بینات لے آیا 45 ۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اسی پر پلٹ پڑے گا 46 ۔ لیکن اگر وہ سچا ہے تو جن ہولناک نتائج کا وہ تم کو خوف دلاتا ہے ان میں سے کچھ تو تم پر ضرور ہی آ جائیں گے ۔ اللہ کسی شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور کذاب 47 ہو ۔
اور ملّتِ فرعون میں سے ایک مردِ مومن نے کہا جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا: کیا تم ایک شخص کو قتل کرتے ہو ( صرف ) اس لئے کہ وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے ، اور وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانیاں لے کر آیا ہے ، اور اگر ( بالفرض ) وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا بوجھ اسی پر ہوگا اور اگر وہ سچا ہے تو جس قدر عذاب کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے تمہیں پہنچ کر رہے گا ، بے شک اﷲ اسے ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزرنے والا سراسر جھوٹا ہو
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :45 یعنی اس نے ایسی کھلی کھلی نشانیاں تمہیں دکھا دی ہیں جن سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہو چکی ہے کہ وہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا رسول ہے ۔ مومن آل فرعون کا اشارہ ان نشانیوں کی طرف تھا جن کی تفصیلات اس سے پہلے گزر چکی ہیں ( تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی ۸۷ ۔ ۸۹ ۔ ۹۰ ۔ ۹۱ ۔ ۹٤ تا۹٦ ، بنی اسرائیل ، حواشی ۱۱۳ تا ۱۱٦ ، جلد سوم ، طی ، حواشی ۲۹ تا ۵۰ ، الشعراء ، حواشی ۲٦ تا ۳۹ ، النمل ، حاشیہ ۱٦ ) ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :46 یعنی اگر ایسی صریح نشانیوں کے باوجود تم اسے جھوٹا سمجھتے ہو تب بھی تمہارے لیے مناسب یہی ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ، کیونکہ دوسرا احتمال ، اور نہایت قوی احتمال یہ بھی ہے کہ وہ سچا ہو اور اس پر ہاتھ ڈال کر تم خدا کے عذاب میں مبتلا ہو جاؤ ۔ اس لیے اگر تم اسے جھوٹا بھی سمجھتے ہو تو اس سے تعرض نہ کرو ۔ وہ اللہ کا نام لے کر جھوٹ بول رہا ہو گا تو اللہ خود اس سے نمٹ لے گا ۔ قریب قریب اسی طرح کی بات اس سے پہلے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی فرعون سے کہہ چکے تھے ۔ وَاِنْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا لِیْ فَاعْتَزِلُوْنِ ( الدخان : 21 ) اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دو ۔ یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ مومن آل فرعون نے گفتگو کے آغاز میں کھل کر یہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ پر ایمان لے آیا ہے ، بلکہ ابتداءً وہ اسی طرح کلام کرتا رہا کہ وہ بھی فرعون ہی کے گروہ کا ایک آدمی ہے اور محض اپنی قوم کی بھلائی کے لیے بات کر رہا ہے ۔ مگر جب فرعون اور اس کے درباری کسی طرح راہ راست پر آتے نظر نہ آئے تو آخر میں اس نے اپنے ایمان کا راز فاش کر دیا ، جیسا کہ پانچویں رکوع میں اس کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :47 اس فقرے کے دو مطلب ممکن ہیں ، اور غالباً مومن آل فرعون نے قصداً یہ ذو معنی بات اسی لیے کہی تھی کہ ابھی وہ کھل کر اپنے خیالات ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ایک ہی شخص کی ذات میں راست روی جیسی خوبی اور کذب و افترا جیسی بدی جمع نہیں ہو سکتیں ۔ تم علانیہ دیکھ رہے ہو کہ موسیٰ ایک نہایت پاکیزہ سیرت اور کمال درجہ کا بلند کردار انسان ہے ۔ اب آخر یہ بات تمہارے دماغ میں کیسے سماتی ہے کہ ایک طرف تو وہ اتنا بڑا جھوٹا ہو کہ اللہ کا نام لے کر نبوت کا بے بنیاد دعویٰ کر بیٹھے ، اور دوسری طرف اللہ اسے اتنے اعلیٰ درجے کے اخلاق عطا فرمائے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اگر حد سے تجاوز کر کے موسیٰ علیہ السلام کی جان لینے کے درپے ہو گے اور ان پر جھوٹے الزامات عائد کر کے اپنے ناپاک منصوبے عمل میں لاؤ گے تو یاد رکھو کہ اللہ تمہیں ہرگز کامیابی کا راستہ نہ دکھائے گا ۔
ایک مرد مومن کی فرعون کو نصیحت ۔ مشہور تو یہی ہے کہ یہ مومن قبطی تھے ( رحمہ اللہ تعالیٰ ) اور فرعون کے خاندان کے تھے ۔ بلکہ سدی فرماتے ہیں فرعون کے یہ چچا زاد بھائی تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے بھی حضرت موسیٰ کے ساتھ نجات پائی تھی ۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں ۔ بلکہ جن لوگوں کا قول ہے کہ یہ مومن بھی اسرائیلی تھے ۔ آپ نے ان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ اسرائیلی ہوتے تو نہ فرعون اس طرح صبر سے ان کی نصیحت سنتا نہ حضرت موسیٰ کے قتل کے ارادے سے باز آتا ۔ بلکہ انہیں ایذاء پہنچاتا ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے آل فرعون میں سے ایک تو یہ مرد ایمان دار تھا اور دوسرے فرعون کی بیوی ایمان لائی تھیں ۔ تیسرا وہ شخص جس نے حضرت موسیٰ کو خبر دی تھی کہ سرداروں کا مشورہ تمہیں قتل کرنے کا ہو رہا ہے ۔ یہ اپنے ایمان کو چھپاتے رہتے تھے لیکن قتل موسیٰ کی سن کر ضبط نہ ہو سکی اور یہی درحقیقت سب سے بہتر اور افضل جہاد ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے انسان کلمہ حق کہہ دے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے ، اور فرعون کے سامنے اس سے زیادہ بڑا کلمہ کوئی نہ تھا ۔ پس یہ شخص بہت بلند مرتبے کے مجاہد تھے ۔ جن کے مقابلے کا کوئی نظر نہیں آتا ۔ البتہ صحیح بخاری شریف وغیرہ میں ایک واقعہ کئی روایتوں سے مروی ہے جس کا ماحاصل یہ ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک مرتبہ پوچھا کہ سب سے بڑی ایذاء مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پہنچائی ہے؟ آپ نے فرمایا سنو ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ شریف میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ کو پکڑ لیا اور اپنی چادر میں بل دے کر آپ کی گردن میں ڈال کر گھسیٹنے لگا جس سے آپ کا گلا گھٹنے لگا ۔ اسی وقت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دوڑے دوڑے آئے اور اسے دھکا دے کر پرے پھینکا اور فرمانے لگے کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس دلیلیں لے کر آیا ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ قریشیوں کامجمع جمع تھا جب آپ وہاں سے گذرے تو انہوں نے کہا کیا تو ہی ہے؟ جو ہمیں ہمارے باپ دادوں کے معبودوں کی عبادت سے منع کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں میں ہی ہوں ۔ اس پر وہ سب آپ کو چمٹ گئے اور کپڑے گھسیٹنے لگے ۔ حضرت ابو بکر نے آ کر آپ کو چھڑایا اور پوری آیت اتقتلون کی تلاوت کی ۔ پس اس مومن نے بھی یہی کہا کہ اس کا قصور تو صرف اتنا ہی ہے کہ یہ اپنا رب اللہ کو بتاتا ہے اور جو کہتا ہے اس پر سند اور دلیل پیش کرتا ہے ۔ اچھا مان لو بالفرض یہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا اللہ سبحان و تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں سزا دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ستایا دکھ دیا تو یقینا تم پر عذاب اللہ برس پڑے گا جیسے کہ وہ کہہ رہا ہے ۔ پس عقلاً لازم ہے کہ تم اسے چھوڑ دو جو اس کی مان رہے ہیں مانیں ۔ تم کیوں اس کے درپے آزار ہو رہے ہیں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرعون اور قوم فرعون سے یہی چاہا تھا ۔ جیسے کہ آیت ( وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌ كَرِيْمٌ 17؀ۙ ) 44- الدخان:17 ) تک ہے یعنی ہم نے ان سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا ان کے پاس رسول کریم کو بھیجا ۔ اس نے کہا کہ اللہ کے بندوں کو مجھے سونپ دو ۔ میں تمہاری طرف رب کا رسول امین ہوں ۔ تم اللہ سے بغاوت نہ کرو ۔ دیکھو میں تمہارے پاس کھلی دلیلیں اور زبردست معجزے لایا ہوں ۔ تم مجھے سنگسار کر دو گے اس سے میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں ، اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھے چھوڑ دو ، یہی جناب رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف مجھے پکارنے دو تم میری ایذاء رسانی سے باز رہو ۔ اور میری قرابت داری کو خیال کرتے ہوئے مجھے دکھ نہ دو ۔ صلح حدیبیہ بھی دراصل یہی چیز تھی جو کھلی فتح کہلائی ۔ وہ مومن کہتا ہے کہ سنو مسرف اور جھوٹے آدمی راہ یافتہ نہیں ہوتے ۔ ان کے ساتھ اللہ کی نصرت نہیں ہوتی ۔ ان کے اقوال و افعال بہت جلد ان کی خباثت کو ظاہر کر دیتے ہیں ۔ برخلاف اس کے یہ نبی اللہ اختلاف و اضطراب سے پاک ہیں ۔ صحیح سچی اور اچھی راہ پر ہیں ۔ زبان کے سچے عمل کے پکے ہیں ۔ اگر یہ حد سے گذر جانے والے اور جھوٹے ہوتے تو یہ راستی اور عمدگی ان میں ہرگز نہ ہوتی ، پھر قوم کو نصیحت کرتے ہیں اور انہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں بھائیو! تمہیں اللہ نے اس ملک کی سلطنت عطا فرمائی ہے ۔ بڑی عزت دی ہے ۔ تمہارا حکم جاری کر رکھا ہے ۔ اللہ کی اس نعمت پر تمہیں اس کا شکر کرنا چائے اور اس کے رسولوں کو سچا ماننا چاہئے ۔ یاد رکھو اگر تم نے ناشکری کی اور رسول کی طرف بری نظریں ڈالیں ۔ تو یقیناً عذاب اللہ تم پر آ جائے گا ۔ بتاؤ اس وقت کسے لاؤ گے ۔ جو تمہاری مدد پر کھڑا ہو اور اللہ کے عذاب کو روکے یا ٹالے؟ یہ لاؤ لشکر یہ جان و مال کچھ کام نہ آئیں گے ۔ فرعون سے اور تو کوئی معقول جواب بن نہ پڑا کھسایانہ بن کر قوم میں اپنی خیر خواہی جتانے لگا کہ میں دھوکا نہیں دے رہا جو میر اخیال ہے اور میرے ذہن میں ہے وہی تم پر ظاہر کر رہا ہوں ۔ حالانکہ دراصل یہ بھی اس کی خیانت تھی ۔ وہ بھی جانتا تھا کہ حضرت موسیٰ اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ جیسے فرمان باری ہے ( لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ ۚ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا ١٠٢؁ ) 17- الإسراء:102 ) یعنی حضرت موسیٰ نے فرمایا اے فرعون تو خوب جانتا ہے کہ یہ عجائبات خاص آسمان و زمین کے پروردگار نے بھیجے ہیں ۔ جو کہ بصیرت کے ذرائع ہیں اور آیت میں ہے ( وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14۝ۧ ) 27- النمل:14 ) ، یعنی انہوں نے باوجود دلی یقین کے از راہ ظلم و زیادتی انکار کر دیا ۔ اسی طرح اس کا یہ کہنا بھی سراسر غلط تھا کہ میں تمہیں حق کی سچائی کی اور بھلائی کی راہ دکھاتا ہوں ۔ اس میں وہ لوگوں کو دھوکا دے رہا تھا اور رعیت کی خیانت کر رہا تھا ۔ لیکن اس کی قوم اس کے دھوے میں آ گئی اور فرعون کی بات مان لی ۔ فرعون نے انہیں کسی بھلائی کی راہ نہ ڈالا ۔ اس کا عمل ہی ٹھیک نہیں تھا اور جگہ اللہ عزوجل فرماتا ہے فرعون نے اپنی قوم کو بہا دیا اور انہیں صحیح راہ تک نہ پہنچنے دیا نہ پہنچایا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو امام اپنی رعایا سے خیانت کر رہا ہو وہ مر کر جنت کی خوشبو بھی نہیں پاتا ۔ حالانکہ وہ خوشبو پانچ سو سال کی راہ پر آتی ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ الموفق للصواب