Surah

Information

Surah # 40 | Verses: 85 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 60 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 56, 57, from Madina
وَقَالَ الَّذِىۡۤ اٰمَنَ يٰقَوۡمِ اِنِّىۡۤ اَخَافُ عَلَيۡكُمۡ مِّثۡلَ يَوۡمِ الۡاَحۡزَابِۙ‏ ﴿30﴾
اس مومن نے کہا اے میری قوم! ( کے لوگو ) مجھے تو اندیشہ ہے کہ تم پر بھی ویسا ہی روز ( بد عذاب ) نہ آئے جو اور امتوں پر آیا ۔
و قال الذي امن يقوم اني اخاف عليكم مثل يوم الاحزاب
And he who believed said, "O my people, indeed I fear for you [a fate] like the day of the companies -
Uss momin ney kaha aey meri qom! ( kay logo ) mujhay to andesha hai kay tum per bhi wesa hi roz ( bad azab ) na aaye jo aur ummaton per aaya.
اور جو شخص ایمان لے آیا تھا اس نے کہا : اے میری قوم ! مجھے ڈر ہے کہ تم پر ویسا ہی دن نہ آجائے جیسا بہت سے گروہوں پر آچکا ہے ۔
اور وہ ایمان والا بولا اے میری قوم! مجھے تم پر ( ف٦۷ ) اگلے گروہوں کے دن کا سا خوف ہے ( ف٦۸ )
وہ شخص جو ایمان لایا تھا اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ، مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پر بھی وہ دن نہ آ جائے جو اس سے پہلے بہت سے جتھوں پر آ چکا ہے ،
اور اس شخص نے کہا جو ایمان لا چکا تھا: اے میری قوم! میں تم پر ( بھی اگلی ) قوموں کے روزِ بد کی طرح ( عذاب ) کا خوف رکھتا ہوں
مرد مومن کی اپنی قوم کو نصیحت ۔ اس مومن کی نصیحت کا آخری حصہ بیان ہو رہا ہے کہ اس نے فرمایا دیکھو اگر تم نے اللہ کے رسول کی نہ مانی اور اپنی سرکشی پر اڑے رہے تو مجھے ڈر یہ ہے کہ کہیں سابقہ قوموں کی طرح تم پر بھی عذاب اللہ کا برس نہ پڑے ۔ قوم نوح اور قوم عاد ثمود کو دیکھ لو کہ پیغمبروں کی نہ ماننے کے وبال میں ان پر کیسے عذاب آئے؟ اور کوئی نہ تھا جو انہیں ٹالتا یاروکتا ۔ اس میں اللہ کا کچھ ظلم نہ تھا اس کی ذات بندوں پر ظلم کرنے سے پاک ہے ان کے اپنے کرتوت تھے جو ان کے لئے وبال جان بن گئے ، مجھے تم پر قیامت کے دن کے عذاب کا بھی ڈر ہے ۔ جو ہانک پکار کا دن ہے ۔ صور کی حدیث میں ہے کہ جب زمین میں زلزلہ آئے گا اور پھٹ جائے گی تو لوگ مارے گھبراہٹ کے ادھر ادھر پریشان حواس بھاگنے لگیں گے ۔ اور ایک دوسرے کو آواز دیں گے ۔ حضرت ضحاک وغیرہ کا قول ہے کہ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب جہنم لائی جائے گی اور لوگ اسے دیکھ کر ڈر کر بھاگیں گے اور فرشتے انہیں میدان محشر کی طرف واپس لائیں گے ۔ جیسے فرمان اللہ ہے ( وَّالْمَلَكُ عَلٰٓي اَرْجَاۗىِٕهَا ۭ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِيَةٌ 17؀ۭ ) 69- الحاقة:17 ) یعنی فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے ۔ اور فرمان ہے ( يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ 33۝ۚ ) 55- الرحمن:33 ) ، یعنی اے انسانو! اور جنو! اگر تم زمین و آسمان کے کناروں سے بھاگ نکلنے کی طاقت رکھتے ہو تو نکل بھاگو لیکن یہ تمہارے بس کی بات نہیں ۔ حسن اور ضحاک کی قرأت میں یوم التناد دال کی تشدید کے ساتھ ہے ۔ اور یہ ماخوذ ہے ندالبعیر سے ، جب اونٹ چلا جائے اور سرکشی کرنے لگے تو یہ لفظ کہا جاتا ہے ، کہا گیا ہے کہ جس ترازو میں عمل تولے جائیں گے وہاں ایک فرشتہ ہو گا جس کی نیکیاں بڑھ جائیں گی وہ با آواز بلند پکار کر کہے گا لوگو فلاں کا لڑکا فلاں سعادت والا ہو گیا اور آج کے بعد سے اس پر شقاوت کبھی نہیں آئے گی اور اس کی نیکیاں گھٹ گئیں تو وہ فرشتہ آواز لگائے گا کہ فلاں بن فلاں بدنصیب ہو گیا اور تباہ و برباد ہو گیا ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں قیامت کو یوم التناد اس لئے کہا گیا ہے کہ جنتی جنتیوں کو اور جہنمی جہنمیوں کو پکاریں گے اور اعمال کے ساتھ پکاریں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وجہ یہ ہے کہ جنتی دوزخیوں کو پکاریں گے اور کہیں گے کہ ہمارے رب نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے سچ پایا ۔ تم بتاؤ کہ کیا تم نے بھی اپنے رب کا وعدہ سچا پایا ؟ وہ جواب دیں گے ہاں ۔ اسی طرح جہنمی جنتیوں کو پکار کر کہیں گے کہ ہمیں تھوڑا سا پانی ہی چھوا دو یا وہ کچھ دے دو جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے ۔ جنتی جواب دیں گے کہ یہاں کے کھانے پینے کو اللہ نے کافروں پر حرام کر دیا ہے اسی طرح سورہ اعراف میں یہ بھی بیان ہے کہ اعراف والے دوزخیوں اور جنتیوں کو پکاریں گے ۔ بغوی وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ تمام باتیں ہیں اور ان سب وجوہ کی بنا پر قیامت کے دن کا نام یوم التناد ہے ۔ یہی قول بہت عمدہ ہے واللہ اعلم ، اس دن لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں گے ۔ لیکن بھاگنے کی کوئی جگہ نہ پائیں گے اور کہہ دیا جائے گا کہ آج ٹھہرنے کی جگہ یہی ہے اس دن کوئی نہ ہو گا جو بچا سکے اور اللہ کے عذاب سے چھڑا سکے بات یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی قادر مطلق نہیں وہ جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ، پھر فرماتا ہے کہ اس سے پہلے اہل مصر کے پاس حضرت یوسف علیہ السلام اللہ کے پیغمبر بن کر آئے تھے ۔ آپ کی بعثت حضرت موسیٰ سے پہلے ہوئی تھی ۔ عزیز مصر بھی آپ ہی تھے اور اپنی امت کو اللہ کی طرف بلاتے تھے ۔ لیکن قوم نے ان کی اطاعت نہ کی ، ہاں بوجہ دنیوی جاہ کے اور وزارت کے تو انہیں ماتحتی کرنی پڑتی تھی ۔ پس فرماتا ہے کہ تم ان کی نبوت کی طرف سے بھی شک میں ہی رہے ۔ آخر جب ان کا انتقال ہو گیا تو تم بالکل مایوس ہوگئے اور امید کرتے ہوئے کہنے لگے کہا اب تو اللہ تعالیٰ کسی کو نبی بنا کر بھیجے گا ہی نہیں ۔ یہ تھا ان کا کفر اور ان کی تکذیب اسی طرح اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دیتا ہے جو بےجا کام کرنے والا حد سے گذرے جانے والا اور شک شبہ میں مبتلا رہنے والا ہو ۔ یعنی جو تمہارا حال ہے یہی حال ان سب کا ہوتا ہے جن کے کام اسراف والے ہوں اور جن کا دل شک شبہ والا ہو ، جو لوگ حق کو باطل سے ہٹاتے ہیں اور بغیر دلیل کے دلیلوں کو ٹالتے ہیں اس پر اللہ ان سے ناخوش ہے اور سخت تر ناراض ہے ۔ ان کے یہ افعال جہاں اللہ کی ناراضگی کا باعث ہیں وہاں ایمان داروں کی بھی ناخوشی کا ذریعہ ہیں ۔ جن لوگوں میں ایسی بےہودہ صفتیں ہوتی ہیں ان کے دل پر اللہ تعالیٰ مہر کر دیتا ہے جس کے بعد انہیں نہ اچھائی اچھی معلوم ہوتی ہے نہ برائی بری لگتی ہے ۔ ہر وہ شخص جو حق سے سرکشی کرنے والا ہو اور تکبر و غرور والا ہو ۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں جبار وہ شخص ہے جو دو انسانوں کو قتل کر ڈالے ۔ ابو عمران جونی اور قتادہ کا فرمان ہے کہ جو بغیر حق کے کسی کو قتل کرے وہ جبار ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔