نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں نے جو برے برے منصوبے بنا رکھے تھے ، اللہ نے اس ( مرد مومن ) کو ان سب سے محفوظ رکھا اور فرعون کے لوگوں کو بد ترین عذاب نے آ گھیرا ۔
آخرکار ان لوگوں نے جو بری سے بری چالیں اس مومن کے خلاف چلیں ، اللہ نے ان سب سے اس کو بچا لیا 61 ، اور فرعون کے ساتھی بدترین عذاب کے پھیر میں آ گئے 62 ۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :61
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص فرعون کی سلطنت میں اتنی اہم شخصیت کا مالک تھا کہ بھرے دربار میں فرعون کے رو در رو یہ حق گوئی کر جانے کے باوجود علانیہ اس کو سزا دینے کی جرأت نہ کی جا سکتی تھی ، اس وجہ سے فرعون اس کے حامیوں کو اسے ہلاک کرنے کے لیے خفیہ تدبیریں کرنی پڑیں ، مگر ان تدبیروں کو بھی اللہ نے نہ چلنے دیا ۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :62
اس طرز بیان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ مومن آل فرعون کی حق گوئی کا یہ واقعہ حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش کے بالکل آخری زمانے میں پیش آیا تھا ۔ غالباً اس طویل کشمکش سے دل برداشتہ ہو کر آخر کار فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کر دینے کا ارادہ کیا ہو گا ۔ مگر اپنی سلطنت کے اس با اثر شخص کی حق گوئی سے اس کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہو گا کہ موسیٰ علیہ السلام کے اثرات حکومت کے بالائی طبقوں تک میں پہنچ گئے ہیں ۔ اس لیے اس نے فیصلہ کیا ہو گا کہ حضرت موسیٰ کے خلاف یہ انتہائی اقدام کرنے سے پہلے ان عناصر کا پتہ چلایا جائے جو سلطنت کے امراء اور اعلیٰ عہدہ داروں میں اس تحریک سے متأثر ہو چکے ہیں ، اور ان کی سرکوبی کر لینے کے بعد حضرت موسیٰ پر ہاتھ ڈالا جائے ۔ لیکن ابھی وہ ان تدبیروں میں لگا ہی ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دے دیا ، اور ان کا پیچھا کرتے ہوئے فرعون اپنے لشکروں سمیت غرقاب ہو گیا ۔