Surah

Information

Surah # 40 | Verses: 85 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 60 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 56, 57, from Madina
اِنَّا لَنَـنۡصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَيَوۡمَ يَقُوۡمُ الۡاَشۡهَادُ ۙ‏ ﴿51﴾
یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہونگے ۔
انا لننصر رسلنا و الذين امنوا في الحيوة الدنيا و يوم يقوم الاشهاد
Indeed, We will support Our messengers and those who believe during the life of this world and on the Day when the witnesses will stand -
Yaqeenan hum apnay rasoolon ki aur eman walon ki madad zindaganiy-e-duniya mein bhi keren gay aur uss din bhi jab gawahee denay walay kharay hongay.
یقین رکھو کہ ہم اپنے پیغمبروں اور ایمان لانے والوں کی دنیوی زندگی میں بھی مدد کرتے ہی ، اور اس دن بھی کریں گے جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے ( 14 )
بیشک ضرور ہم اپنے رسولوں کی مدد کریں گے اور ایمان والوں کی ( ف۱۰۸ ) دنیا کی زندگی میں اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے ( ف۱۰۹ )
یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازما کرتے ہیں ، 67 اور اس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے 68 ،
بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان لانے والوں کی دنیوی زندگی میں ( بھی ) مدد کرتے ہیں اور اس دن ( بھی کریں گے ) جب گواہ کھڑے ہوں گے
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :67 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، الصافّات ، حاشیہ نمبر 93 ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :68 یعنی جب اللہ کی عدالت قائم ہو گی اور اس کے حضور گواہ پیش کیے جائیں گے ۔
رسولوں اور اہل ایمان کو دنیا و آخرت میں مدد کی بشارت ۔ آیت میں رسولوں کی مدد کرنے کا اللہ کا وعدہ ہے ، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض رسولوں کو ان کی قوموں نے قتل کر دیا ، جیسے حضرت یحییٰ ، حضرت زکریا ، حضرت شعیب صلوات اللہ علیہم و سلامہ ، اور بعض انبیاء کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا ، جیسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ۔ اور حضرت عیسیٰ کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف ہجرت کرائی ۔ پھر کیا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ وعدہ پورا کیوں نہیں ہوا ؟ اس کے دو جواب ہیں ایک تو یہ کہ یہاں گو عام خبر ہے لیکن مراد بعض سے ہے ، اور یہ لعنت میں عموماً پایا جاتا ہے کہ مطلق ذکر ہو اور مراد خاص افراد ہوں ۔ دوسرے یہ کہ مدد کرنے سے مراد بدلہ لینا ہو ۔ پس کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جسے ایذاء پہنچانے والوں سے قدرت نے زبردست انتقام نہ لیا ہو ۔ چنانچہ حضرت یحییٰ ، حضرت زکریا ، حضرت شعیب کے قاتلوں پر اللہ نے ان کے دشمنوں کو مسلط کر دیا اور انہوں نے انہیں زیر و زبر کر ڈالا ، ان کے خون کی ندیاں بہا دیں اور انہیں نہایت ذلت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا ۔ نمرود مردود کا مشہور واقعہ دنیا جانتی ہے کہ قدرت نے اسے کیسی پکڑ میں پکڑا ؟ حضرت عیسیٰ کو جن یہودیوں نے سولی دینے کی کوشش کی تھی ۔ ان پر جناب باری عزیز و حکیم نے رومیوں کو غالب کر دیا ۔ اور ان کے ہاتھوں ان کی سخت ذلت و اہانت ہوئی ۔ اور ابھی قیامت کے قریب جب آپ اتریں گے تب دجال کے ساتھ ان یہودیوں کی جو اس کے لشکری ہوں گے قتل کریں گے ۔ اور امام عادل اور حاکم باانصاف بن کر تشریف لائیں گے صلیب کو توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ باطل کر دیں گے بجز اسلام کے اور کچھ قبول نہ فرمائیں گے ۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان مدد اور یہی دستور قدرت ہے جو پہلے سے ہے اور اب تک جاری ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کی دنیوی امداد بھی فرماتا ہے اور ان کے دشمنوں سے خود انتقام لے کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا ہے جو شخص میرے نبیوں سے دشمنی کرے اس نے مجھے لڑائی کیلئے طلب کیا ۔ دوسری حدیث میں ہے میں اپنے دوستوں کی طرف سے بدلہ ضرور لے لیا کرتا ہوں جیسے کہ شیر بدلہ لیتا ہے اسی بناء پر اس مالک الملک نے قوم نوح سے ، عاد سے ، ثمودیوں سے ، اصحاب الرس سے ، قوم لوط سے ، اہل مدین سے اور ان جیسے ان تمام لوگوں سے جنہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور حق کا خلاف کیا تھا بدلہ لیا ۔ ایک ایک کو چن چن کر تباہ برباد کیا اور جتنے مومن ان میں تھے ان سب کو بچا لیا ۔ امام سدی فرماتے ہیں جس قوم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے یا ایمان دار بندے انہیں پیغام الٰہی پہنچانے کیلئے کھڑے ہوئے اور اس قوم نے ان نبیوں کی یا ان مومنوں کی بےحرمتی کی اور انہیں مارا پیٹا قتل کیا ضرور بالضرور اسی زمانے میں عذاب الٰہی ان پر برس پڑے ۔ نبیوں کے قتل کے بدلے لینے والے اٹھ کھڑے ہوئے اور پانی کی طرح ان کے خون سے پیاسی زمین کو سیراب کیا ۔ پس گو انبیاء اور مومنین یہاں قتل کئے گئے لیکن ان کا خون رنگ لایا اور ان کے دشمنوں کا بھس کی طرح بھرکس نکال دیا ۔ ناممکن ہے کہ ایسے بندگان خاص کی امداد و اعانت نہ ہو اور ان کے دشمنوں سے پورا انتقام نہ لیا گیا ہو ۔ اشرف الانبیاء حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی دنیا اور دنیا والوں کے سامنے ہیں کہ اللہ نے آپ کو اور آپ کے صحابہ کو غلبہ دیا اور دشمنوں کی تمام تر کوششوں کو بےنتیجہ رکھا ۔ ان تمام پر آپ کو کھلا غلبہ عطا فرمایا ۔ آپ کے کلمے کو بلند و بالا کیا آپ کا دین دنیا کے تمام ادیان پر چھا گیا ۔ قوم کی زبردست مخالفتوں کے وقت اپنے نبی کو مدینے پہنچا دیا اور مدینے والوں کو سچا جاں نثار بنا کر پھر مشرکین کا سارا زور بدر کی لڑائی میں ڈھا دیا ۔ ان کے کفر کے تمام وزنی ستون اس لڑائی میں اکھیڑ دیئے ۔ سرداران مشرک یا تو ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے یا مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدی بن کر نامرادی کے ساتھ گردن جھکائے نظر آنے لگے قید و بند میں جکڑے ہوئے ذلت و اہانت کے ساتھ مدینے کی گلیوں میں کسی کے ہاتھوں پر اور کسی کے پاؤں پر دوسرے کی گرفت تھی ۔ اللہ کی حکمت نے ان پر پھر احسان کیا اور ایک مرتبہ پھر موقعہ دیا فدیہ لے کر آزاد کر دیئے گئے لیکن پھر بھی جب مخالفت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے باز نہ آئے اور اپنے کرتوتوں پر اڑے رہے ۔ تو وہ وقت بھی آیا کہ جہاں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپ چھپا کر رات کے اندھیرے میں پاپیادہ ہجرت کرنی پڑی تھی وہاں فاتحانہ حیثیت سے داخل ہوئے اور گردن پر ہاتھ باندھے دشمنان رسول سامنے لائے گئے ۔ اور بلاد حرم کی عظمت و عزت رسول محترم کی وجہ سے پوری ہوئی ۔ اور تمام شرک و کفر اور ہر طرح کی بے ادبیوں سے اللہ کا گھر پاک صاف کر دیا گیا ۔ بالآخر یمن بھی فتح ہوا اور پورا جزیرہ عرب قبضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آ گیا ۔ اور جوق کے جوق لوگ اللہ کے دین میں داخل ہوگئے ۔ پھر رب العالمین نے اپنے رسول رحمتہ العالمین کو اپنی طرف بلا لیا اور وہاں کی کرامت و عظمت سے اپنی مہمانداری میں رکھ کر نوازا صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر آپ کے بعد آپ کے نیک نہاد صحابہ کو آپ کا جانشین بنایا ۔ جو محمدی جھنڈا لئے کھڑے ہوگئے اور اللہ کی توحید کی طرف اللہ کی مخلوق کو بلانے لگے ۔ جو روڑا راہ میں آیا اسے الگ کیا ۔ جو خار چمن میں نظر پڑا اسے کاٹ ڈالا گاؤں گاؤں شہر شہر ملک ملک دعوت اسلام پہنچا دی جو مانع ہوا اسے منع کا مزہ چکھایا اسی ضمن میں مشرق و مغرب میں سلطنت اسلامی پھیل گئی ۔ زمین پر اور زمین والوں کے جسموں پر ہی صحابہ کرام نے فتح حاصل نہیں کی بلکہ ان کے دلوں پر بھی فتح پالی اسلامی نقوش دلوں میں جما دیئے اور سب کو کلمہ توحید کے نیچے جمع کر دیا ۔ دین محمد نے زمین کا چپہ چپہ اور کونا کونا اپنے قبضے میں کر لیا ۔ دعوت محمدیہ بہرے کانوں تک بھی پہنچ چکی ۔ صراط محمدی اندھوں نے بھی دیکھ لیا ۔ اللہ اس پاکباز جماعت کو ان کی اولو العزمیوں کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے ۔ آمین! الحمد للہ کا اور اس کے رسول کا کلام موجود ہے ۔ اور آج تک ان کے سروں پر رب کا ہاتھ ہے ۔ اور قیامت تک یہ وطن مظفر و منصور ہی رہے گا اور جو اس کے مقابلے پر آئے گا منہ کی کھائے گا اور پھر کبھی منہ نہ دکھائے گا یہی مطلب ہے اس مبارک آیت کا ۔ قیامت کے دن بھی دینداروں کی مدد و نصرت ہوگی اور بہت بڑی اور بہت اعلیٰ پیمانے تک ۔ گواہوں سے مراد فرشتے ہیں ، دوسری آیت میں یوم بدل ہے پہلی آیت کے اسی لفظ سے ۔ بعض قرأتوں میں یوم ہے تو یہ گویا پہلے یوم کی تفسیر ہے ۔ ظالموں سے مراد مشرک ہیں ان کا عذر و فدیہ قیامت کے دن مقبول نہ ہوگا وہ رحمت رب سے اس دن دور دھکیل دیئے جائیں گے ۔ ان کیلئے برا گھر یعنی جہنم ہوگا ۔ ان کی عاقبت خراب ہوگی ، حضرت موسیٰ کو ہم نے ہدایت ونور بخشا ۔ بنی اسرائیل کا انجام بہتر کیا ۔ فرعون کے مال و زمین کا انہیں وارث بنایا کیونکہ یہ اللہ کی اطاعت اور اتباع رسول میں ثابت قدمی کے ساتھ سختیاں برداشت کرتے رہے تھے ۔ جس کتاب کے یہ وارث ہوئے وہ عقلمندوں کیلئے سرتاپا باعث ہدایت و عبرت تھی ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ صبر کیجئے اللہ کا وعدہ سچا ہے آپ کا ہی بول بالا ہوگا انجام کے لحاظ سے آپ والے ہی غالب رہیں گے ۔ رب اپنے وعدے کے خلاف کبھی نہیں کرتا بلاشک و شبہ دین اللہ کا اونچا ہو کر ہی رہے گا ۔ تو اپنے رب سے استغفار کرتا رہ ۔ آپ کو حکم دے کر دراصل آپ کی امت کو استغفار پر آمادہ کرنا ہے ۔ دن کے آخری اور رات کے انتہائی وقت خصوصیت کے ساتھ رب کی پاکیزگی اور تعریف بیان کیا کر ، جو لوگ باطل پر جم کر حق کو ہٹا دیتے ہیں دلائل کو غلط بحث سے ٹال دیتے ہیں ان کے دلوں میں بجز تکبر کے اور کچھ نہیں ان میں اتباع حق سے سرکشی ہے ۔ یہ رب کی باتوں کی عزت جانتے ہی نہیں ۔ لیکن جو تکبر اور جو خودی اور جو اپنی اونچائی وہ چاہتے ہیں وہ انہیں ہرگز حاصل نہیں ہونے کی ۔ ان کے مقصود باطل ہیں ۔ ان کے مطلوب لاحاصل ہیں ۔ اللہ کی پناہ طلب کر کہ ان جیسا حال کسی بھلے آدمی کا نہ ہو ۔ اور ان نخوت پسند لوگوں کی شرارت سے بھی اللہ کی پناہ چاہ کر ۔ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ کہتے تھے دجال انہی میں سے ہوگا اور اس کے زمانے میں یہ زمانے کے بادشاہ ہو جائیں گے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ طلب کیا کرو ۔ وہ سمیع و بصیر ہے ۔ لیکن آیت کو یہودیوں کے بارے میں نازل شدہ بتانا اور دجال کی بادشاہی اور اس کے فتنے سے پناہ کا حکم ۔ سب چیزیں تکلف سے پرہیں ۔ مانا کہ یہ تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے مگر یہ قول ندرت سے خالی نہیں ۔ ٹھیک یہی ہے کہ عام ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ۔