Surah

Information

Surah # 40 | Verses: 85 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 60 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 56, 57, from Madina
هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَةٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخۡرِجُكُمۡ طِفۡلًا ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّكُمۡ ثُمَّ لِتَكُوۡنُوۡا شُيُوۡخًا ؕ وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّتَوَفّٰى مِنۡ قَبۡلُ وَلِتَبۡلُغُوۡۤا اَجَلًا مُّسَمًّى وَّلَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿67﴾
وہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا پھر تمہیں بچہ کی صورت میں نکالتا ہے ، پھر ( تمہیں بڑھاتا ہے کہ ) تم اپنی پوری قوت کو پہنچ جاؤ پھر بوڑھے ہو جاؤ تم میں سے بعض اس سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں ( وہ تمہیں چھوڑ دیتا ہے ) تاکہ تم مدت معین تک پہنچ جاؤ اور تاکہ تم سوچ سمجھ لو ۔
هو الذي خلقكم من تراب ثم من نطفة ثم من علقة ثم يخرجكم طفلا ثم لتبلغوا اشدكم ثم لتكونوا شيوخا و منكم من يتوفى من قبل و لتبلغوا اجلا مسمى و لعلكم تعقلون
It is He who created you from dust, then from a sperm-drop, then from a clinging clot; then He brings you out as a child; then [He develops you] that you reach your [time of] maturity, then [further] that you become elders. And among you is he who is taken in death before [that], so that you reach a specified term; and perhaps you will use reason.
Woh wohi hai jiss ney tumhen mitti say phir nutfay say phir khoon kay lothray say peda kiya phir tumhen bachay ki soorat mein nikalta hai phir ( tumhen barhata hai kay ) tum apni qooat ko phonch jao phir boorhay hojao. Tum mein say baaz iss say pehlay hi fot hojatay hain ( woh tumhen chor deta hai ) takay tum muddat moayyen tak phonch jao aur takay tum soch samajh lo.
وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفے سے ، پھر جمے ہوئے خون سے ۔ پھر وہ تمہیں بچے کی شکل میں باہر لاتا ہے ، پھر ( وہ تمہاری پرورش کرتا ہے ) تاکہ تم اپنی بھر پور طاقت کو پہنچ جاؤ اور پھر بوڑھے ہوجاؤ اور تم میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو اس سے پہلے ہی وفات پا جاتے ہیں اور تاکہ تم ایک مقرر میعاد تک پہنچو اور تاکہ تم عقل سے کام لو ( 18 )
وہی ہے جس نے تمہیں ( ف۱۳۹ ) مٹی سے بنایا پھر ( ف۱٤۰ ) پانی کی بوند سے ( ف۱٤۱ ) پھر خون کی پھٹک سے پھرتمہیں نکالتا ہے بچہ پھرتمہیں باقی رکھتا ہے کہ اپنی جوانی کو پہنچو ( ف۱٤۲ ) پھر اس لیے کہ بوڑھے ہو اور تم میں کوئی پہلے ہی اٹھالیا جاتا ہے ( ف۱٤۳ ) اور اس لیے کہ تم ایک مقرر وعدہ تک پہنچو ( ف۱٤٤ ) اور اس لیے کہ سمجھو ( ف۱٤۵ )
وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفے سے ، پھر خون کے لوتھڑے سے ، پھر وہ تمہیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے ، پھر تمہیں بڑھاتا ہے تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جاؤ ، پھر اور بڑھاتا ہے تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچو ۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے 96 ۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے مقرر وقت تک پہنچ جاؤ 97 ، اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو 98 ۔
وہی ہے جس نے تمہاری ( کیمیائی حیات کی ابتدائی ) پیدائش مٹی سے کی پھر ( حیاتیاتی ابتداء ) ایک نطفہ ( یعنی ایک خلیہ ) سے ، پھر رحم مادر میں معلّق وجود سے ، پھر ( بالآخر ) وہی تمہیں بچہ بنا کر نکالتا ہے پھر ( تمہیں نشو و نما دیتا ہے ) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ ۔ پھر ( تمہیں عمر کی مہلت دیتا ہے ) تاکہ تم بوڑھے ہو جاؤ اور تم میں سے کوئی ( بڑھاپے سے ) پہلے ہی وفات پا جاتا ہے اور ( یہ سب کچھ اس لئے کیاجاتا ہے ) تاکہ تم ( اپنی اپنی ) مقررّہ میعاد تک پہنچ جاؤ اور اِس لئے ( بھی ) کہ تم سمجھ سکو
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :96 یعنی کوئی پیدا ہونے سے پہلے اور کوئی جوانی کو پہنچنے سے پہلے اور کوئی بڑھاپے کو پہنچنے سے پہلے مر جاتا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :97 وقت مقرر سے مراد یا تو موت کا وقت ہے ، یا وہ وقت جب تمام انسانوں کو دوبارہ اٹھ کر اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزارتا ہوا اس ساعت خاص تک لے جاتا ہے جو اس نے ہر ایک کی واپسی کے لیے مقرر کر رکھی ہے ۔ اس وقت سے پہلے ساری دنیا مل کر بھی کسی کو مارنا چاہے تو نہیں مار سکتی ، اور وہ وقت آجانے کے بعد دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی کسی کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں تو کامیاب نہیں ہو سکتیں ۔ دوسرے معنی لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ یہ ہنگامہ ہستی اس لیے برپا نہیں کیا گیا ہے کہ تم مر کر مٹی میں مل جاؤ اور فنا ہو جاؤ ، بلکہ زندگی کے ان مختلف مرحلوں سے اللہ تم کو اس لیے گزارتا ہے کہ تم سب اس وقت پر جو اس نے مقرر کر رکھا ہے ، اس کے سامنے حاضر ہو ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :98 یعنی زندگی کے ان مختلف مراحل سے تم کو اس لیے نہیں گزارا جاتا کہ تم جانوروں کی طرح جیو اور انہی کی طرح مر جاؤ ، بلکہ اس لیے گزارا جاتا ہے کہ تم اس عقل سے کام لو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اور اس نظام کو سمجھو جس میں خود تمہارے اپنے وجود پر یہ احوال گزرتے ہیں ۔ زمین کے بے جان مادوں میں زندگی جیسی عجیب و غریب چیز کا پیدا ہونا ، پھر نطفے کے ایک خورد بینی کیڑے سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق کا وجود میں آنا ، پھر ماں کے پیٹ میں استقرار حمل کے وقت سے وضع حمل تک اندر ہی اندر اس کا اس طرح پرورش پانا کہ اس کی جنس ، اس کی شکل و صورت ، اس کے جسم کی ساخت ، اس کے ذہن کی خصوصیات ، اور اس کی قوتیں اور صلاحیتیں سب کچھ وہیں متعین ہو جائیں اور ان کی تشکیل پر دنیا کی کوئی طاقت اثر انداز نہ ہو سکے ، پھر یہ بات کہ جسی اسقاط حمل کا شکار ہونا ہے اس کا اسقاط ہی ہو کر رہتا ہے ، جسے بچپن میں مرنا ہے وہ بچپن ہی میں مرتا ہے خواہ وہ کسی بادشاہ ہی کا بچہ کیوں نہ ہو ، اور جسے جوانی یا بڑھاپے کی کسی عمر تک پہنچنا ہے وہ خطرناک سے خطرناک حالات سے گزر کر بھی ، جن میں بظاہر موت یقینی ہونی چاہیے ، اس عمر کو پہنچ کر رہتا ہے ، اور جسے عمر کے جس خاص مرحلے میں مرنا ہے اس میں وہ دنیا کے کسی بہترین ہسپتال کے اندر بہترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہتے ہوئے بھی مر کر رہتا ہے ، یہ ساری باتیں کیا اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کر رہی ہیں کہ ہماری اپنی حیات و ممات کا سر رشتہ کسی قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے؟ اور جب امر واقعہ یہی ہے کہ ایک قادر مطلق ہماری موت و زیست پر حکمراں ہے تو پھر کوئی نبی یا ولی یا فرشتہ یا ستارہ اور سیارہ آخر کیسے ہماری بندگی و عبادت کا مستحق ہو گیا ؟ کسی بندے کو یہ مقام کب سے حاصل ہوا کہ ہم اس سے دعائیں مانگیں اور اپنی قسمت کے بننے اور بگڑنے کا مختار اس کو مان لیں؟ اور کسی انسانی طاقت کا یہ منصب کیسے ہو گیا کہ ہم اس کے قانون اور اس کے امر و نہی اور اس کے خود ساختہ حلال و حرام کی بے چون و چرا اطاعت کریں؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم ، الحج ، حاشیہ ۹ ) ۔