سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :110
مطلب یہ ہے کہ اگر تم محض تماشا دیکھنے اور دل بہلانے کے لیے معجزے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہو ، بلکہ تمہیں صرف یہ اطمینان کرنے کی ضرورت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنّاتوں کو ماننے کی دعوت تمہیں دے رہے ہیں ( یعنی توحید اور آخرت ) وہ حق ہیں یا نہیں ، تو اس کے لیے خدا کی یہ نشانیاں بہت کافی ہیں جو ہر وقت تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آ رہی ہیں ۔ حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان نشانیوں کے ہوتے کسی اور نشانی کی کیا حاجت رہ جاتی ہے ۔ یہ معجزات کے مطالبے کا تیسرا جواب ہے ۔ یہ جواب بھی اس سے پہلے متعدد مقامات پر قرآن میں دیا گیا ہے اور ہم اس کی تشریح اچھی طرح کر چکے ہیں ( ملاحظہ ہو جلد اول ، الانعام ، حواشی ۲٦ ۔ ۲۷ ، جلد دوم یونس ، حاشیہ ۱۰۵ ، الرعد حواشی ۱۵ تا ۲۰ ، جلد سوم ، الشعراء ، حواشی ۳ ۔ ٤ ۔ ۵ ) ۔
زمین پر جو جانور انسان کی خدمت کر رہے ہیں ، خصوصاً گائے ، بیل ، بھینس ، بھیڑ ، بکری ، اونٹ اور گھوڑے ، ان کو بنانے والے نے ایسے نقشے پر بنایا ہے کہ یہ بآسانی انسان کے پالتو خادم بن جاتے ہیں ، اور ان سے اس کی بے شمار ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔ ان پر سواری کرتا ہے ۔ ان سے بار برداری کا کام لیتا ہے ۔ انہیں کھیتی باڑی کے کام میں استعمال کرتا ہے ۔ ان کا دودھ نکال کر اسے پیتا بھی ہے اور اس سے دہی ، لسّی ، مکھن ، گھی ، کھویا ، پنیر ، اور طرح طرح کی مٹھائیاں بناتا ہے ۔ ان کا گوشت کھاتا ہے ۔ ان کی چربی استعمال کرتا ہے ۔ ان کے اون اور بال اور کھال اور آنتیں اور ہڈی اور خون اور گوبر ، ہر چیز اسکے کام آتی ہے ۔ کیا یہ اس بات کا کھلا ثبوت نہیں ہے کہ انسان کے خالق نے زمین پر اس کو پیدا کرنے سے بھی پہلے اس کی ان بے شمار ضروریات کو سامنے رکھ کر یہ جانور اس خاص نقشے پر پیدا کر دیے تھے تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے؟
پھر زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی سے لبریز ہے اور صرف ایک چوتھائی خشکی پر مشتمل ہے ۔ خشک حصوں کے بھی بہت سے چھوٹے اور بڑے رقبے ایسے ہیں جن کے درمیان پانی حائل ہے ۔ کرہ زمین کے ان خشک علاقوں پر انسانی آبادیوں کا پھیلنا اور پھر ان کے درمیان سفر و تجارت کے تعلقات کا قائم ہونا اس کے بغیر ممکن نہ تھا کہ پانی اور سمندروں اور ہواؤں کو ایسے قوانین کا پابند بنایا جاتا جن کی بدولت جہاز رانی کی جا سکتی ، اور زمین پر وہ سر و سامان پیدا کیا جاتا جسے استعمال کر کے انسان جہاز سازی پر قادر ہوتا ۔ کیا یہ اس بات کی صریح علامت نہیں ہے کہ ایک ہی قادر مطلق رب رحیم و حکیم ہے جس نے انسان اور زمین اور پانی اور سمندروں اور ہواؤں اور ان تمام چیزوں کو جو زمین پر ہیں اپنے خاص منصوبے کے مطابق بنایا ہے ۔ بلکہ اگر انسان صرف جہاز رانی ہی کے نقطہ نظر سے دیکھے تو اس میں تاروں کے مواقع اور سیاروں کی باقاعدہ گردش سے جو مدد ملتی ہے وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ زمین ہی نہیں ، آسمان کا خالق بھی وہی ایک رب کریم ہے ۔
اس کے بعد اس بات پر بھی غور کیجیے کہ جس خدائے حکیم نے اپنی اتنی بے شمار چیزیں انسان کے تصرف میں دی ہیں اور اس کے مفاد کے لیے یہ کچھ سر و سامان فراہم کیا ہے ، کیا بسلامتی ہوش و حواس آپ اس کے متعلق یہ گمان کر سکتے ہیں کہ وہ معاذاللہ ایسا آنکھ کا اندھا اور گانٹھ کا پورا ہو گا کہ وہ انسان کو یہ سب کچھ دے کر کبھی اس سے حساب نہ لے گا ۔