Surah

Information

Surah # 40 | Verses: 85 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 60 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 56, 57, from Madina
اَفَلَمۡ يَسِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ فَيَنۡظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡؕ كَانُوۡۤا اَكۡثَرَ مِنۡهُمۡ وَاَشَدَّ قُوَّةً وَّ اٰثَارًا فِى الۡاَرۡضِ فَمَاۤ اَغۡنٰى عَنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿82﴾
کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر اپنے سے پہلوں کا انجام نہیں دیکھا؟ جو ان سے تعداد میں زیادہ تھے قوت میں سخت اور زمین میں بہت ساری یادگاریں چھوڑی تھیں ان کے کئے کاموں نے انہیں کچھ بھی فائدہ نہ پہنچایا ۔
افلم يسيروا في الارض فينظروا كيف كان عاقبة الذين من قبلهم كانوا اكثر منهم و اشد قوة و اثارا في الارض فما اغنى عنهم ما كانوا يكسبون
Have they not traveled through the land and observed how was the end of those before them? They were more numerous than themselves and greater in strength and in impression on the land, but they were not availed by what they used to earn.
Kiya enhon ney zamin mein chal phir ker apnay say pehlon ka anjam nahi dekha? Jo inn say tadaad mein ziyadah thay qooat mein sakht aur zamin mein boht sari yaadgaren chori thin unn kay kiyey kaamon ney unhen kuch bhi faeedah na phonchaya.
بھلا کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے جو لوگ تھے ، ان کا انجام کیسا ہوا وہ ان سے تعداد میں زیادہ تھے ، اور طاقت میں بھی ان سے بڑھے ہوئے تھے ، اور ان یادگاروں میں بھی جو وہ زمین میں چھوڑ کر گئے ہیں ۔ پھر بھی جو کچھ وہ کماتے تھے ، وہ ان کے کچھ کام نہیں آیا
یا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا کہ دیکھتے ان سے اگلوں کا کیسا انجام ہوا ، وہ ان سے بہت تھے ( ف۱۷٤ ) اور ان کی قوت ( ف۱۷۵ ) اور زمین میں نشانیاں ان سے زیادہ ( ف۱۷٦ ) تو ان کے کیا کام آیا جو انہوں نے کمایا ، ( ف۱۷۷ )
پھر کیا 111 یہ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کو ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ وہ ان سے تعداد میں زیادہ تھے ، ان سے بڑھ کر طاقتور تھے ، اور زمین میں ان سے زیادہ شاندار آثار چھوڑ گئے ہیں ۔ جو کچھ کمائی انہوں نے کی تھی ، آخر وہ ان کے کس کام آئی؟
سو کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی کہ وہ دیکھتے کہ اُن لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو اُن سے پہلے گزر گئے ، وہ اِن لوگوں سے ( تعداد میں بھی ) بہت زیادہ تھے اور طاقت میں ( بھی ) سخت تر تھے اور نشانات کے لحاظ سے ( بھی ) جو ( وہ ) زمین میں چھوڑ گئے ہیں ( کہیں بڑھ کر تھے ) مگر جو کچھ وہ کمایا کرتے تھے اُن کے کسی کام نہ آیا
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :111 یہ خاتمہ کلام ہے ۔ اس حصے کو پڑھتے وقت آیات 4 ۔ 5 ۔ اور آیت 21 پر ایک دفعہ پھر نگاہ ڈال لیں ۔
نزول عذاب کے وقت کا ایمان بےفائدہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان اگلے لوگوں کو خبر دے رہا ہے جو رسولوں کو اس سے پہلے جھٹلا چکے ہیں ۔ ساتھ ہی بتاتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا کچھ انہوں نے بھگتا ؟ باوجود یکہ وہ قوی تھے زیادہ تھے زمین میں نشانات عمارتیں وغیرہ بھی زیادہ رکھنے والے تھے اور بڑے مالدار تھے ۔ لیکن کوئی چیز ان کے کام نہ آئی کسی نے اللہ کے عذاب کو نہ دفع کیا نہ کم کیا نہ ٹالا نہ ہٹایا ۔ یہ تھے ہی غارت کئے جانے کے قابل کیونکہ جب ان کے پاس اللہ کے قاصد صاف صاف دلیلیں ، روشن حجتیں ، کھلے معجزات ، پاکیزہ تعلیمات لے کر آئے تو انہوں نے آنکھ بھر کر دیکھا تک نہیں اپنے پاس کے علوم پر مغرور ہوگئے ۔ اور رسولوں کی تعلیم کی حقارت کرنے لگے ، کہنے لگے ہم ہی زیادہ عالم ہیں حساب کتاب ، عذاب ثواب کوئی چیز نہیں ۔ اپنی جہالت کو علم سمجھ بیٹھے ۔ پھر تو اللہ کا وہ عذاب آیا کہ ان کے بنائے کچھ نہ بنی اور جسے جھٹلاتے تھے ۔ جس پر ناک بھوں چڑھاتے تھے جسے مذاق میں اڑاتے تھے اسی نے انہیں تہس نہس کر دیا ، پھر کس بل نکال ڈالا ، تہ و بالا کر دیا ، روئی کی طرح دھن دیا اور بھوسی کی طرح اڑا دیا ۔ اللہ کے عذابوں کو آتا ہوا بلکہ آیا ہوا دیکھ کر ایمان کا اقرار کیا اور توحید تسلیم بھی کر لی ۔ اور غیر اللہ جل شانہ سے صاف انکار بھی کیا ، لیکن اس وقت کی نہ توبہ قبول نہ ایمان قبول نہ اسلام مسلم ۔ فرعون نے بھی غرق ہوتے ہوئے کہا تھا کہ میرا اس اللہ جل شانہ پر ایمان ہے جس پر بنی اسرائیل کا ایمان ہے میں اس کے سوا کسی کو لائق عبادت نہیں مانتا میں اسلام قبول کرتا ہوں ۔ اللہ جل شانہ کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ اب ایمان لانا بےسود ہے ۔ بہت نافرمانیاں اور شرانگیزیاں کر چکے ہو ۔ حضرت موسیٰ نے بھی اس سرکش کیلئے یہی بددعا کی تھی کہ اے اللہ جل شانہ آل فرعون کے دلوں کو اس قدر سخت کر دے کہ عذاب الیم دیکھ لینے تک انہیں ایمان نصیب نہ ہو ۔ پس یہاں بھی فرمان باری ہے کہ عذابوں کا معائنہ کرنے پر ایمان کی قبولیت نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا ۔ یہ اللہ کا حکم عام ہے ۔ جو بھی عذابوں کو دیکھ کر توبہ کرے اس کی توبہ نامقبول ہے ۔ حدیث شریف میں ہے غرغرے سے پہلے تک کی توبہ قبول ہے ۔ جب دم سینے میں انکا روح حلقوم تک پہنچ گئی فرشتوں کو دیکھ لیا اب کوئی توبہ نہیں ۔ اسی لئے آخر میں ارشاد فرمایا کہ کفار ٹوٹے اور گھاٹے میں ہی ہیں ۔