Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ يُوۡحٰٓى اِلَىَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمۡ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ فَاسۡتَقِيۡمُوۡۤا اِلَيۡهِ وَاسۡتَغۡفِرُوۡهُ‌ ؕ وَوَيۡلٌ لِّلۡمُشۡرِكِيۡنَ ۙ‏ ﴿6﴾
آپ کہہ دیجئے! کہ میں تو تم ہی جیسا انسان ہوں مجھ پر وحی نازل کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک اللہ ہی ہے سو تم اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اس سے گناہوں کی معافی چاہو ، اور ان مشرکوں کے لئے ( بڑی ہی ) خرابی ہے ۔
قل انما انا بشر مثلكم يوحى الي انما الهكم اله واحد فاستقيموا اليه و استغفروه و ويل للمشركين
Say, O [Muhammad], "I am only a man like you to whom it has been revealed that your god is but one God; so take a straight course to Him and seek His forgiveness." And woe to those who associate others with Allah -
Aap keh dijiyey! Kay mein to tum hi jaisa insan hun mujh per wahee nazil ki jati hai kay tum sab ka mabood aik Allah hi hai so tum uss ki taraf mutawajja hojaoaur uss say gunhaon ki maafi chahao aur inn mushrikon kay liye ( bari hi ) kharabi hai.
۔ ( اے پیغمبر ) کہہ دو کہ میں تو تم ہی جیسا ایک انسان ہوں ۔ ( البتہ ) مجھ پر یہ وحی نازل ہوتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے ۔ لہذا تم اپنا رخ سیدھا اسی کی طرف رکھو ، اور اسی سے مغفرت مانگو ۔ اور بڑی تباہی ہے ان مشرکوں کے لیے ۔
تم فرماؤ ( ف۱۱ ) آدمی ہونے میں تو میں تمہیں جیسا ہوں ( ف۱۲ ) مجھے وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے ، تو اس کے حضور سیدھے رہو ( ف۱۳ ) اور اس سے معافی مانگو ( ف۱٤ ) اور خرابی ہے شرک والوں کو ،
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ان سے کہو ، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا 5 ۔ مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا تو بس ایک ہی خدا ہے 6 ، لہٰذا تم سیدھے اسی کا رخ اختیار کرو7 اور اس سے معافی چاہو8 ۔ تباہی ہے ان مشرکوں کے لیے
۔ ( اِن کے پردے ہٹانے اور سننے پر آمادہ کرنے کے لئے ) فرما دیجئے: ( اے کافرو! ) بس میں ظاہراً آدمی ہونے میں تو تم ہی جیسا ہوں ( پھر مجھ سے اور میری دعوت سے اس قدر کیوں گریزاں ہو ) میری طرف یہ وحی بھیجی گئی ہے کہ تمہارا معبود فقط معبودِ یکتا ہے ، پس تم اسی کی طرف سیدھے متوجہ رہو اور اس سے مغفرت چاہو ، اور مشرکوں کے لئے ہلاکت ہے
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :5 یعنی میرے بس میں یہ نہیں ہے کہ تمہارے دلوں پر چڑھے ہوئے غلاف اتار دوں ، تمہارے بہرے کان کھول دوں ، اور اس حجاب کو پھاڑ دوں جو تم نے خود ہی میرے اور اپنے درمیان ڈال لیا ہے ۔ میں تو ایک انسان ہوں ۔ اسی کو سمجھا سکتا ہوں جو ملنے کے لیے تیار ہو ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :6 یعنی تم چاہے اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لو اور اپنے کان بہرے کر لو ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تمہارے بہت سے خدا نہیں ہیں بلکہ صرف ایک ہی خدا ہے جس کے تم بندے ہو ۔ اور یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے جو میں نے اپنے غور و فکر سے بنایا ہو ، جس کے صحیح اور غلط ہونے کا یکساں احتمال ہو ، بلکہ یہ حقیقت مجھ پر وحی کے ذریعہ سے منکشف کی گئی ہے جس میں غلطی کے احتمال کا شائبہ تک نہیں ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :7 یعنی کسی اور کو خدا نہ بناؤ ، کسی اور کی بندگی و پرستش نہ کرو ، کسی اور کو مدد کے لیے نہ پکارو ، کسی اور کے آگے سر تسلیم و اطاعت خم نہ کرو ، کسی اور کے رسم و رواج اور قانون و ضابطہ کو شریعت واجب الاطاعت نہ مانو ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :8 معافی اس بے وفائی کی جو اب تک تم اپنے خدا سے کرتے رہے ، اس شرک اور کفر اور نافرمانی کی جس کا ارتکاب تم سے اب تک ہوتا رہا ، اور ان گناہوں کی جو خدا فراموشی کے باعث تم سے سرزد ہوئے ۔
حصول نجات اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اللہ کا حکم ہو رہا ہے کہ ان جھٹلانے والے مشرکوں کے سامنے اعلان کر دیجئے کہ میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں ۔ مجھے بذریعہ وحی الٰہی کے حکم دیا گیا ہے کہ تم سب کا معبود ایک اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ تم جو متفرق اور کئی ایک معبود بنائے بیٹھے ہو یہ طریقہ سراسر گمراہی والا ہے ۔ تم ساری عبادتیں اسی ایک اللہ کیلئے بجا لاؤ ۔ اور ٹھیک اسی طرح جس طرح تمہیں اس کے رسول سے معلوم ہو ۔ اور اپنے اگلے گناہوں سے توبہ کرو ۔ ان کی معافی طلب کرو ۔ یقین مانو کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے ہلاک ہونے والے ہیں ، جو زکوٰۃ نہیں دیتے ۔ یعنی بقول ابن عباس لا الہ الا اللہ کی شہادت نہیں دیتے ۔ عکرمہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا Ḍ۝۽ ) 91- الشمس:9 ) یعنی اس نے فلاح پائی جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا ۔ اور وہ ہلاک ہوا جس نے اسے دبا دیا ۔ اور آیت میں فرمایا ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى 14۝ۙ ) 87- الأعلى:14 ) یعنی اس نے نجات حاصل کرلی جس نے پاکیزگی کی اور اپنے رب کا نام ذکر کیا پھر نماز ادا کی ۔ اور جگہ ارشاد ہے ( هَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰى 18؀ۙ ) 79- النازعات:18 ) کیا تجھے پاک ہونے کا خیال ہے؟ ان آیتوں میں زکوٰۃ یعنی پاکی سے مطلب نفس کو بےہودہ اخلاق سے دور کرنا ہے اور سب سے بڑی اور پہلی قسم اس کی شرک سے پاک ہونا ہے ، اسی طرح آیت مندرجہ بالا میں بھی زکوٰۃ نہ دینے سے توحید کا نہ ماننا مراد ہے ۔ مال کی زکوٰۃ کو زکوٰۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ حرمت سے پاک کر دیتی ہے ۔ اور زیادتی اور برکت اور کثرت مال کا باعث بنتی ہے ۔ اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ کی توفیق ہوتی ہے ۔ لیکن امام سعدی ، ماویہ بن قرہ ، قتادہ اور اکثر مفسرین نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ مال زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ۔ اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے امام ابن جریر بھی اسی کو مختار کہتے ہیں ۔ لیکن یہ قول تامل طلب ہے ۔ اس لئے کہ زکوٰۃ فرض ہوتی ہے مدینے میں جاکر ہجرت کے دوسرے سال ۔ اور یہ آیت اتری ہے مکے شریف میں ۔ زیادہ سے زیادہ اس تفسیر کو مان کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صدقے اور زکوٰۃ کی اصل کا حکم تو نبوت کی ابتدا میں ہی تھا ، جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے ( وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ١٤١؀ۙ ) 6- الانعام:141 ) جس دن کھیت کاٹو اس کا حق دے دیا کرو ۔ ہاں وہ زکوٰۃ جس کا نصاب اور جس کی مقدار من جانب اللہ مقرر ہے وہ مدینے میں مقرر ہوئی ۔ یہ قول ایسا ہے جس سے دونوں باتوں میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے ۔ خود نماز کو دیکھئے کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے ابتداء نبوت میں ہی فرض ہو چکی تھی ۔ لیکن معراج والی رات ہجرت سے ڈیڑھ سال پہلے پانچوں نمازیں باقاعدہ شروط و ارکان کے ساتھ مقرر ہو گئیں ۔ اور رفتہ رفتہ اس کے تمام متعلقات پورے کر دیئے گئے واللہ اعلم ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے ۔ کہ اللہ کے ماننے والوں اور نبی کے اطاعت گزاروں کیلئے وہ اجر و ثواب ہے جو دائمی ہے اور کبھی ختم نہیں ہونے والا ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے ( مَّاكِثِيْنَ فِيْهِ اَبَدًا Ǽ۝ۙ ) 18- الكهف:3 ) وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اور فرماتا ہے ( عَطَاۗءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ ١٠٨؁ ) 11-ھود:108 ) انہیں جو انعام دیا جائے گا وہ نہ ٹوٹنے والا اور مسلسل ہے ۔ سدی کہتے ہیں گویا وہ ان کا حق ہے جو انہیں دیا گیا نہ کہ بطور احسان ہے ۔ لیکن بعض ائمہ نے اس کی تردید کی ہے ۔ کیونکہ اہل جنت پر بھی اللہ کا احسان یقینا ہے ۔ خود قرآن میں ہے ۔ ( بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 17؀ ) 49- الحجرات:17 ) یعنی بلکہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ وہ تمہیں ایمان کی ہدایت کرتا ہے ۔ جنتیوں کا قول ہے ۔ ( فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَوَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ 27؀ ) 52- الطور:27 ) پس اللہ نے ہم پر احسان کیا اور آگ کے عذاب سے بچا لیا ۔ رسول کریم علیہ افضل اصلوۃ والتسلیم فرماتے ہیں مگر یہ کہ مجھے اپنی رحمت میں لے لے اور اپنے فضل و احسان میں ۔