Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَقُلۡ اَنۡذَرۡتُكُمۡ صٰعِقَةً مِّثۡلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوۡدَ ؕ‏ ﴿13﴾
اب بھی یہ روگردان ہوں تو کہہ دیجئے! کہ میں تمہیں اس کڑک ( عذاب آسمانی ) سے ڈراتا ہوں جو مثل عادیوں اور ثمودیوں کی کڑک کے ہوگی ۔
فان اعرضوا فقل انذرتكم صعقة مثل صعقة عاد و ثمود
But if they turn away, then say, "I have warned you of a thunderbolt like the thunderbolt [that struck] 'Aad and Thamud.
Abb bhi yeh roo-gardan ho to keh dijiyey! Kay mein tumhen uss karak ( azab-e-aasmani ) say darata hun jo misil aadiyon aur samoodiyon ki karak kay hogi.
پھر بھی اگر یہ لوگ منہ موڑیں تو کہہ دو کہ میں تمہیں اس کڑکے سے خبر دار کردیا ہے جیسا کڑکا عاد اور ثمود پر نازل ہوا تھا
پھر اگر وہ منہ پھیریں ( ف۳۱ ) تو تم فرماؤ کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں ایک کڑک سے جیسی کڑک عاد اور ثمود پر آئی تھی ( ف۳۲ )
اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں 17 تو ان سے کہہ دو کہ میں تم کو اسی طرح کے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا عاد اور ثمود پر نازل ہوا تھا ۔
پھر اگر وہ رُوگردانی کریں تو آپ فرما دیں: میں تمہیں اُس خوفناک عذاب سے ڈراتا ہوں جو عاد اور ثمود کی ہلاکت کے مانند ہوگا
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :17 یعنی اس بات کو نہیں مانتے کہ خدا اور معبود بس وہی ایک ہے جس نے یہ زمین اور ساری کائنات بنائی ہے ، اور اپنی اس جہالت پر اصرار ہی کیے چلے جاتے ہیں کہ اس خدا کے ساتھ دوسروں کو بھی ، جو حقیقت میں اس کے مخلوق و مملوک ہیں ، معبود بنائیں گے اور اس کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات میں انہیں اس کا شریک ٹھہرائیں گے ۔
انبیاء کی تکذیب عذاب الٰہی کا سبب ۔ حکم ہوتا ہے کہ جو آپ کو جھٹلا رہے ہیں اور اللہ کے ساتھ کفر کر رہے ہیں آپ ان سے فرما دیجئے کہ میری تعلیم سے رو گردانی تمہیں کسی نیک نتیجے پر نہیں پہنچائے گی ۔ یاد رکھو کہ جس طرح انبیاء کی مخالف امتیں تم سے پہلے زیرو زبر کر دی گئیں کہیں تمہاری شامت اعمال بھی تمہیں انہی میں سے نہ کر دے ۔ قوم عاد اور قوم ثمود کے اور ان جیسے اوروں کے حالات تمہارے سامنے ہیں ۔ ان کے پاس پے درپے رسول آئے اس گاؤں میں اس گاؤں میں اس بستی میں اس بستی میں اللہ کے پیغمبر اللہ کی منادی کرتے پھرتے لیکن ان کی آنکھوں پر وہ چربی چڑھی ہوئی تھی اور دماغ میں وہ گند ٹھسا ہوا تھا کہ کسی ایک کو بھی نہ مانا ۔ اپنے سامنے اللہ والوں کی بہتری اور دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بدحالی دیکھتے تھے لیکن پھر بھی تکذیب سے باز نہ آئے ۔ حجت بازی اور کج بحثی سے نہ ہٹے اور کہنے لگے اگر اللہ کو رسول بھیجنا ہوتا تو کسی اپنے فرشتے کو بھیجتا تم انسان ہو کر رسول کریم بن بیٹھے؟ ہم تو اسے ہرگز باور نہ کریں گے؟ قوم عاد نے زمین میں فساد پھیلا دیا ان کی سرکشی ان کا غرور حد کو پہنچ گیا ۔ ان کی لا ابالیاں اور بےپرواہیاں یہاں تک پہنچ گئیں کہ پکار اٹھے ہم سے زیادہ زور آور کوئی نہیں ۔ ہم طاقتور مضبوط اور ٹھوس ہیں اللہ کے عذاب ہمارا کیا بگاڑ لیں گے؟ اس قدر پھولے کہ اللہ کو بھول گئے ۔ یہ بھی خیال نہ رہا کہ ہمارا پیدا کرنے والا تو اتنا قوی ہے کہ اس کی زور آوری کا اندازہ بھی ہم نہیں کر سکتے ۔ جیسے فرمان ہے ( وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ 47؀ ) 51- الذاريات:47 ) ہم نے اپنے ہاتھوں آسمان کو پیدا کیا اور ہم بہت ہی طاقتور اور زور آور ہیں ، پس ان کے اس تکبر پر اور اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے پر اور اللہ کی نافرمانی کرنے اور رب کی آیتوں کے انکار پر ان پر عذاب الٰہی آ پڑا ۔ تیز و تند ، سرد ، دہشت ناک ، سرسراتی ہوئی سخت آندھی آئی ۔ تاکہ ان کا غرور ٹوٹ جائے اور ہوا سے وہ تباہ کر دیئے جائیں ۔ صراصر کہتے ہیں وہ ہوا جس میں آواز پائی جائے ۔ مشرق کی طرف ایک نہر ہے جو بہت زور سے آواز کے ساتھ بہتی رہتی ہے اس لئے اسے بھی عرب صرصر کہتے ہیں ۔ نحسات سے مراد پے درپے ، ایک دم ، مسلسل ، سات راتیں اور آٹھ دن تک یہی ہوائیں رہیں ۔ وہ مصیبت جو ان پر مصیبت والے دن آئی وہ پھر آٹھ دن تک نہ ہٹی نہ ٹلی ۔ جب تک ان میں سے ایک ایک کو فنا کے گھاٹ نہ اتار دیا اور ان کا بیج ختم نہ کر دیا ۔ ساتھ ہی آخرت کے عذابوں کا لقمہ بنے جن سے زیادہ ذلت و توہین کی کوئی سزا نہیں ۔ نہ دنیا میں کوئی ان کی امداد کو پہنچا نہ آخرت میں کوئی مدد کیلئے اٹھے گا ۔ بےیارو مددگار رہ گئے ، ثمودیوں کی بھی ہم نے رہنمائی کی ۔ ہدایت کی ان پر وضاحت کر دی انہیں بھلائی کی دعوت دی ۔ اللہ کے نبی حضرت صالح نے ان پر حق ظاہر کر دیا لیکن انہوں نے مخالفت اور تکذیب کی ۔ اور نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر جس اونٹنی کو اللہ نے علامت بنایا تھا اس کی کوچیں کاٹ دیں ۔ پس ان پر بھی عذاب اللہ برس پڑا ۔ ایک زبردست کلیجے پھاڑ دینے والی چنگاڑ اور دل پاش پاش کر دینے والے زلزلے نے ذلت و توہین کے ساتھ ان کے کرتوتوں کا بدلہ لیا ۔ ان میں جتنے وہ لوگ تھے جنہیں اللہ کی ذات پر ایمان تھا نبیوں کی تصدیق کرتے تھے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے تھے انہیں ہم نے بچا لیا انہیں ذرا سا بھی ضرر نہ پہنچا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذلت و توہین سے اور عذاب اللہ سے نجات پالی ۔