Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
اِذۡ جَآءَتۡهُمُ الرُّسُلُ مِنۡۢ بَيۡنِ اَيۡدِيۡهِمۡ وَمِنۡ خَلۡفِهِمۡ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰهَ‌ؕ قَالُوۡا لَوۡ شَآءَ رَبُّنَا لَاَنۡزَلَ مَلٰٓٮِٕكَةً فَاِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِهٖ كٰفِرُوۡنَ‏ ﴿14﴾
ان کے پاس جب ان کے آگے پیچھے سے پیغمبر آئے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہمارا پروردگار چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا ۔ ہم تو تمہاری رسالت کے بالکل منکر ہیں ۔
اذ جاءتهم الرسل من بين ايديهم و من خلفهم الا تعبدوا الا الله قالوا لو شاء ربنا لانزل ملىكة فانا بما ارسلتم به كفرون
[That occurred] when the messengers had come to them before them and after them, [saying], "Worship not except Allah ." They said, "If our Lord had willed, He would have sent down the angels, so indeed we, in that with which you have been sent, are disbelievers."
Unn kay pass jab unkay aagay peechay payghumbar aaye kay tum Allah kay siwa kissi ki ibadat na kero to unhon ney jawab diya kay agar humara perwardigar chahata to farishton ko bhejta. Hum to tumhari risalat kay bilkul munkir hain.
یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کے پاس پیغمبر ( کبھی ) ان کے آگے سے اور ( کبھی ) ان کے پیچھے سے یہ پیغام لے کر آئے کہ اللہ کے سوا کسی چیز کی عبادت نہ کرو ۔ انہوں نے کہا کہ : اگر ہمارا پروردگار چاہتا تو فرشتے بھیجتا ۔ لہذا جس بات کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا ہے ۔ ہم اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ۔
جب رسول ان کے آگے پیچھے پھرتے تھے ( ف۳۳ ) کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو ، بولے ( ف۳٤ ) ہمارا رب چاہتا تو فرشتے اتارتا ( ف۳۵ ) تو جو کچھ تم لے کر بھیجے گئے ہم اسے نہیں مانتے ( ف۳٦ )
جب خدا کے رسول ان کے پاس آگے اور پیچھے ، ہر طرف سے آئے 18 اور انہیں سمجھایا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو انہوں نے کہا ہمارا رب چاہتا تو فرشتے بھیجتا ، لہٰذا ہم اس بات کو نہیں مانتے جس کے لیے تم بھیجے گئے ہو 19 ۔
جب اُن کے پاس اُن کے آگے اور اُن کے پیچھے ( یا اُن سے پہلے اور ان کے بعد ) پیغمبر آئے ( اور کہا ) کہ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ، تو وہ کہنے لگے: اگر ہمارا رب چاہتا تو فرشتوں کو اتار دیتا سو جو کچھ تم دے کر بھیجے گئے ہو ہم اس کے منکر ہیں
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :18 اس فقرے کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ان کے پاس رسول آتے رہے ۔ دوسرے یہ کہ رسولوں نے ہر پہلو سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی اور ان کو راہ راست پر لانے کے لیے کوئی تدبیر اختیار کرنے میں کسر نہ اٹھا رکھی ۔ تیسرے یہ کہ ان کے پاس ان کے اپنے ملک میں بھی رسول آئے اور گرد و پیش کے ملکوں بھی آتے رہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :19 یعنی اگر اللہ کو ہمارا یہ مذہب پسند نہ ہوتا اور وہ اس سے باز رکھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا ۔ تم چونکہ فرشتے نہیں ہو بلکہ ہم جیسے انسان ہی ہو اس لیے ہم یہ نہیں مانتے کہ تم کو خدا نے بھیجا ہے اور اس غرض کے لیے بھیجا ہے کہ ہم اپنا مذہب چھوڑ کر وہ دین اختیار کرلیں جسے تم پیش کر رہے ہو ۔ کفار کا یہ کہنا کہ جس چیز کے لیے تم بھیجے گئے ہو اسے ہم نہیں مانتے ، محض طنز کے طور پر تھا ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ انکو خدا کا بھیجا ہوا مانتے تھے اور پھر ان کی بات ماننے سے انکار کرتے تھے ۔ بلکہ یہ اسی طرح کا طنزیہ انداز بیان ہے جیسے فرعون نے حضرت موسیٰ کے متعلق اپنے درباریوں سے کہا تھا کہ : اِنَّ رَسُوْلَکُمْ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْن ( الشعراء: آیت 27 ) ۔ یہ رسول صاحب جو تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، سورہ یٰس حاشیہ نمبر 11 )