Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
فَاَرۡسَلۡنَا عَلَيۡهِمۡ رِيۡحًا صَرۡصَرًا فِىۡۤ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّـنُذِيۡقَهُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡىِ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا‌ ؕ وَلَعَذَابُ الۡاٰخِرَةِ اَخۡزٰى‌ وَهُمۡ لَا يُنۡصَرُوۡنَ‏ ﴿16﴾
بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز تند وآندھی منحوس دنوں میں بھیج دی کہ انہیں دنیاوی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزہ چکھا دیں ، اور ( یقین مانو ) کہ آخرت کا عذاب اس سے بہت زیادہ رسوائی والا ہے اور وہ مدد نہیں کئے جائیں گے ۔
فارسلنا عليهم ريحا صرصرا في ايام نحسات لنذيقهم عذاب الخزي في الحيوة الدنيا و لعذاب الاخرة اخزى و هم لا ينصرون
So We sent upon them a screaming wind during days of misfortune to make them taste the punishment of disgrace in the worldly life; but the punishment of the Hereafter is more disgracing, and they will not be helped.
Bil-aakhir hum ney unn per aik tez-o-tund aandhi manhoos dino mein bhej di kay unhen dunyawi zindagi mein zillat kay azab ka maza chakha den aur ( yaqeen mano ) kay aakhirat ka azab iss say boht ziyadah ruswaee wala hai aur woh madad nahi kiyey jayen gay.
چنانچہ ہم نے کچھ منحوس دنوں میں ( 9 ) ان پر آندھی کی شکل میں ہوا بھیجی تاکہ انہیں دنیوی زندگی میں رسوائی کے عذاب کا مزہ چکھائیں اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ رسوا کرنے والا ہے ۔ اور ان کو کوئی مدد میسر نہیں آئے گی ۔
تو ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی سخت گرج کی ( ف۳۸ ) ان کی شامت کے دنوں میں کہ ہم انہیں رسوائی کا عذاب چکھائیں دنیا کی زندگی میں اور بیشک آخرت کے عذاب میں سب سے بڑی رسوائی ہے اور ان کی مدد نہ ہوگی ، (
آخرکار ہم نے چند منحوس دنوں میں سخت طوفانی ہوا ان پر بھیج دی 20 ۔ تاکہ انہیں دنیا ہی کی زندگی میں ذلت و رسوائی کے عذاب کا مزا چکھا دیں 21 ، اور آخرت کا عذاب تو اس بھی زیادہ رسوا کن ہے ، وہاں کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ ہوگا ۔
سو ہم نے اُن پر منحوس دنوں میں خوفناک تیز و تُند آندھی بھیجی تاکہ ہم انہیں دنیوی زندگی میں ذِلت کے عذاب کا مزہ چکھائیں ، اور آخرت کا عذاب تو سب سے زیادہ ذِلت انگیز ہوگا اور اُن کی کوئی مدد نہ کی جائے گی
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :20 منحوس دنوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دن بجائے خود منحوس تھے اور عذاب اس لیے آیا کہ یہ منحوس دن قوم عاد پر آگئے تھے ۔ یہ مطلب اگر ہوتا اور بجائے خود ان دنوں ہی میں کوئی نحوست ہوتی تو عذاب دور و نزدیک کی ساری ہی قوموں پر آجاتا ۔ اس لیے صحیح مطلب یہ ہے کہ ان ایام میں چونکہ اس قوم پر خدا کا عذاب نازل ہوا اس بنا پر وہ دن قوم عاد کے لیے منحوس تھے ۔ اس آیت سے دنوں کے سعد و نحس پر استدلال کرنا درست نہیں ہے ۔ طوفانی ہوا کے لیے ریح صرصر کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ اس کے معنی میں اہل لغت کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت لُو ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت ٹھنڈی ہوا ہے ۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی ہوا ہے جس کے چلنے سے سخت شور برپا ہوتا ہو ۔ بہرحال اس معنی پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ لفظ بہت تیز طوفانی ہوا کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہوا مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک چلتی رہی ۔ اس کے زور سے لوگ اس طرح گر گر کر مر گئے اور مر مر کر گر پڑے جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے گرے پڑے ہوں ( الحاقہ آیت 7 ) جس چیز پر سے بھی یہ ہوا گزر گئی ، اس کو بوسیدہ کر کے رکھ دیا ( الزاریات ، 42 ) جس وقت یہ ہوا آ رہی تھی اس وقت عاد کے لوگ خوشیاں منا رہے تھے کہ خوب گھٹا گھر کر آئی ہے ، بارش ہو گی اور سوکھے دھانوں میں پانی پڑ جائے گا ۔ مگر وہ آئی تو اس طرح آئی کہ اس نے ان کے پورے علاقے کو تباہ کر کے رکھ دیا ( الا حقاف ، 24 ۔ 25 ) سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :21 یہ ذلت و رسوائی کا عذاب ان کے کبر و غرور کا جواب تھا جس کی بنا پر وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے تھے اور خم ٹھونک ٹھونک کر کہتے تھے کہ ہم سے زیادہ زور آور کون ہے ۔ اللہ نے ان کو اس طرح ذلیل کیا کہ ان کی آبادی کے بڑے حصے کو ہلاک کر دیا ، ان کے تمدن کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا ، اور ان کا قلیل حصہ جو باقی رہ گیا وہ دنیا کی انہی قوموں کے آگے ذلیل و خوار ہوا جن پر کبھی یہ لوگ اپنا زور جتاتے تھے ۔ ( عاد کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی ۵۱ تا ۵۳ ، ہود ، حواشی ۵٤ تا ٦٦ ، جلد سوم ، المومنون ، حواشی ۳٤ تا ۳۷ ، الشعراء ، حواشی ۸۸ تا ۹٤ ، العنکبوت ، حاشیہ ٦۵ )