Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَيَوۡمَ يُحۡشَرُ اَعۡدَآءُ اللّٰهِ اِلَى النَّارِ فَهُمۡ يُوۡزَعُوۡنَ‏ ﴿19﴾
اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف لائے جائیں گے اور ان ( سب ) کو جمع کر دیا جائے گا ۔
و يوم يحشر اعداء الله الى النار فهم يوزعون
And [mention, O Muhammad], the Day when the enemies of Allah will be gathered to the Fire while they are [driven] assembled in rows,
Aur jiss din Allah kay dushman dozakh ki taraf laye jayen gay aur inn ( sab ) ko jama kerdiya jayega.
اور اس دن کا دھیان رکھو جب اللہ کے دشمنوں کو جمع کر کے آگ کی طرف لے جایا جائے گا ، چنانچہ انہیں ٹولیوں میں بانٹ دیا جائے گا ۔
اور جس دن اللہ کے دشمن ( ف٤٦ ) آگ کی طرف ہانکے جائیں گے تو ان کے اگلوں کو روکیں گے ،
اور ذرا اس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے 23 ۔ ان کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا 24 ،
اور جس دن اﷲ کے دشمنوں کو دوزخ کی طرف جمع کر کے لایا جائے گا پھر انہیں روک روک کر ( اور ہانک کر ) چلایا جائے گا
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :23 اصل مدعا یہ کہنا ہے کہ جب وہ اللہ کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے گھیر لائے جائیں گے ۔ لیکن اس مضمون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے ۔ کیونکہ ان کا انجام آخر کار دوزخ ہی میں جانا ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :24 یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ ایک ایک نسل اور ایک ایک پشت کا حساب کر کے اس کا فیصلہ یکے بعد دیگرے کیا جاتا رہے ، بلکہ تمام اگلی پچھلی نسلیں بیک وقت جمع کی جائیں گی اور ان سب کا اکٹھا حساب کیا جائے گا ۔ اس لیے کہ ایک شخص اپنی زندگی میں جو کچھ بھی اچھے اور برے اعمال کرتا ہے اس کے اثرات اس کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتے بلکہ اس کے مرنے کے بعد بھی مدت ہائے دراز تک چلتے رہتے ہیں اور وہ ان اثرات کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے ۔ اسی طرح ایک نسل اپنے دور میں جو کچھ بھی کرتی ہے اس کے اثرات بعد کی نسلوں میں صدیوں جاری رہتے ہیں اور اپنے اس ورثے کے لیے وہ ذمہ دار ہوتی ہے ۔ محاسبے اور انصاف کے لیے ان سارے ہی آثار و نتائج کا جائزہ لینا اور ان کی شہادتیں فراہم کرنا ناگزیر ہے ۔ اسی وجہ سے قیامت کے روز نسل پر نسل آتی جائے گی اور ٹھہرائی جاتی رہے گی ۔ عدالت کا کام اس وقت شروع ہو گا جب اگلے پچھلے سب جمع ہو جائیں گے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ ۳ )
انسان اپنا دشمن آپ ہے ۔ یعنی ان مشرکوں سے کہو کہ قیامت کے دن ان کا حشر جہنم کی طرف ہو گا اور داروغہ جہنم ان سب کو جمع کریں گے جیسے فرمان ہے ( وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِيْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا 86؀ۘ ) 19-مريم:86 ) یعنی گنہگاروں کو سخت پیاس کی حالت میں جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے ۔ انہیں جہنم کے کنارے کھڑا کر دیا جائے گا ۔ اور ان کے اعضاء بدن اور کان اور آنکھیں اور پوست ان کے اعمال کی گواہیاں دیں گی ۔ تمام اگلے پچھلے عیوب کھل جائیں گے ہر عضو بدن پکار اٹھے گا کہ مجھ سے اس نے یہ یہ گناہ کیا ، اس وقت یہ اپنے اعضا کی طرف متوجہ ہو کر انہیں ملامت کریں گے ۔ کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ کی حکم بجا آوری کے ماتحت اس نے ہمیں بولنے کی طاقت دی اور ہم نے سچ سچ کہہ سنایا ۔ وہی تو تمہارا ابتداء پیدا کرنے والا ہے اسی نے ہر چیز کو زبان عطا فرمائی ہے ۔ خالق کی مخالفت اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کون کر سکتا ہے؟ بزار میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مسکرائے یا ہنس دیئے پھر فرمایا تم میری ہنسی کی وجہ دریافت نہیں کرتے؟ صحابہ نے کہا فرمایئے کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا قیامت کے دن بندہ اپنے رب سے جھگڑے گا ۔ کہے گا کہ اے اللہ کیا تیرا وعدہ نہیں کہ تو ظلم نہ کرے گا ؟ اللہ تعالیٰ اقرار کرے گا تو بندہ کہے گا کہ میں تو اپنی بد اعمالیوں پر کسی کی شہادت قبول نہیں کرتا ۔ اللہ فرمائے گا کیا میری اور میرے بزرگ فرشتوں کی شہادت ناکافی ہے؟ لیکن پھر بھی وہ بار بار اپنی ہی کہتا چلا جائے گا ۔ پس اتمام حجت کیلئے اس کی زبان بند کر دی جائے گی اور اس کے اعضاء بدن سے کہا جائے گا کہ اس نے جو جو کیا تھا اس کی گواہی تم دو ۔ جب وہ صاف صاف اور سچی گواہی دے دیں گے تو یہ انہیں ملامت کرے گا اور کہے گا کہ میں تو تمہارے ہی بچاؤ کیلئے لڑ جھگڑ رہا تھا ۔ ( مسلم نسائی وغیرہ ) حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کافر و منافق کو حساب کیلئے بلایا جائے گا اس کے اعمال اس کے سامنے پیش ہوں گے تو قسمیں کھا کھا کر انکار کرے گا اور کہے گا اے اللہ تیرے فرشتوں نے وہ لکھ لیا ہے جو میں نے ہرگز نہیں کیا فرشتے کہیں گے فلاں دن فلاں جگہ تو نے فلاں عمل نہیں کیا ؟ یہ کہے گا اے اللہ تیری عزت کی قسم میں نے ہرگز نہیں کیا ۔ اب منہ پر مہر مار دی جائے گی اور اعضا بدن گواہی دیں گے سب سے پہلے اس کی داہنی ران بولے گی ، ( ابن ابی حاتم ) ابو یعلی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن کافر کے سامنے اس کی بداعمالیاں لائی جائیں گی تو وہ انکار کرے گا اور جھگڑنے لگے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ ہیں تیرے پڑوسی جو شاہد ہیں ۔ یہ کہے گا سب جھوٹے ہیں ۔ فرمائے گا یہ ہیں تیرے کنبے قبیلے والے جو گواہ ہیں کہے گا یہ بھی سب جھوٹے ہیں ۔ اللہ ان سے قسم دلوائے گا ، وہ قسم کھائیں گے لیکن یہ انکار ہی کرے گا ۔ سب کو اللہ چپ کرا دے گا اور خود ان کی زبانیں ان کے خلاف گواہی دیں گی پھر انہیں جہنم واصل کر دیا جائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک وقت تو وہ ہوگا کہ نہ کسی کو بولنے کی اجازت ہوگی نہ عذر معذرت کرنے کی ۔ پھر جب اجازت دی جائے گی تو بولنے لگیں گے اور جھگڑے کریں گے اور انکار کریں گے اور جھوٹی قسمیں کھائیں گے ۔ پھر گواہوں کو لایا جائے گا آخر زبانیں بند ہو جائیں گی اور خود اعضاء بدن ہاتھ پاؤں وغیرہ گواہی دیں گے ۔ پھر زبانیں کھول دی جائیں گی تو اپنے اعضاء بدن کو ملامت کریں گے وہ جواب دیں گے کہ ہمیں اللہ نے قوت گویائی دی اور ہم نے صحیح صحیح کہا پس زبانی اقرار بھی ہو جائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں رافع ابو الحسن سے مروی ہے کہ اپنے کرتوت کے انکار پر زبان اتنی موٹی ہو جائے گی کہ بولا نہ جائے گا ۔ پھر جسم کے اعضاء کو حکم ہوگا تم بولو تو ہر ایک اپنا اپنا عمل بتا دے گا کان ، آنکھ ، کھال ، شرم گاہ ، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ ۔ اور بھی اسی طرح کی بہت سی روایتیں سورہ یٰسین کی آیت ( اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 65؀ ) 36-يس:65 ) ، کی تفسیر میں گزر چکی ہے ۔ جنہیں دوبارہ وارد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں جب ہم سمندر کی ہجرت سے واپس آئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہم سے پوچھا تم نے حبشہ کی سرزمین پر کوئی تعجب خیز بات دیکھی ہو تو سناؤ ۔ اس پر ایک نوجوان نے کہا ایک مرتبہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان کے علماء کی ایک بڑھیا عورت ایک پانی کا گھڑا سر پر لئے ہوئے آ رہی تھی انہی میں سے ایک جوان نے اسے دھکا دیا جس سے وہ گر پڑی اور گھڑا ٹوٹ گیا ۔ وہ اٹھی اور اس شخص کی طرف دیکھ کر کہنے لگی مکار تجھے اس کا حال اس وقت معلوم ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی کرسی سجائے گا اور سب اگلے پچھلوں کو جمع کرے گا اور ہاتھ پاؤں گواہیاں دیں گے ۔ اور ایک ایک عمل کھل جائے گا اس وقت تیرا اور میرا فیصلہ بھی ہو جائے گا ۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اس نے سچ کہا اس نے سچ کہا اس قوم کو اللہ تعالیٰ کس طرح پاک کرے جس میں زور آور سے کمزور کا بدلہ نہ لیا جائے؟ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے ۔ ابن ابی الدنیا میں یہی روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے ، جب یہ اپنے اعضا کو ملامت کریں گے تو اعضاء جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہیں گے کہ تمہارے اعمال دراصل کچھ پوشیدہ نہ تھے اللہ کے دیکھتے ہوئے اس کے سامنے تم کفر و معاصی میں مستغرق رہتے تھے اور کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے ۔ کیونکہ تم سمجھے ہوئے تھے کہ ہمارے بہت سے اعمال اس سے مخفی ہیں ، اسی فاسد خیال نے تمہیں تلف اور برباد کر دیا اور آج کے دن تم برباد ہوگئے ۔ مسلم ترمذی وغیرہ میں حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ میں کعبتہ اللہ کے پردے میں چھپا ہوا تھا جو تین شخص آئے بڑے پیٹ اور کم عقل والے ایک نے کہا کیوں جی ہم جو بولتے چالتے ہیں اسے اللہ سنتا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا اگر اونچی آواز سے بولیں تو تو سنتا ہے اور آہستہ آواز سے باتیں کریں تو نہیں سنتا ۔ دوسرے نے کہا اگر کچھ سنتا ہے تو سب سنتا ہوگا میں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا اس پر آیت ( وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ 22؀ ) 41- فصلت:22 ) ، نازل ہوئی ۔ عبد الرزق میں ہے منہ بند ہونے کے بعد سب سے پہلے پاؤں اور ہاتھ بولیں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جناب باری عزاسمہ کا ارشاد ہے کہ میرے ساتھ میرا بندہ جو گمان کرتا ہے میں اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں اور جب وہ مجھے پکارتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔ حضرت حسن اتنا فرما کر کچھ تامل کرکے فرمانے لگے جس کا جیسا گمان اللہ کے ساتھ ہوتا نیک ظن ہوتا ہے وہ اعمال بھی اچھے کرتا ہے اور کافر و منافق چونکہ اللہ کے ساتھ بدظن ہوتے ہیں وہ اعمال بھی بد کرتے ہیں ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے تم میں سے کوئی شخص نہ مرے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ کے ساتھ نیک ظن ہو ۔ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ برے خیالات رکھے اللہ نے انہیں تہ و بالا کر دیا ۔ پھر یہی آیت آپ نے پڑھی ، آگ جہنم میں صبر سے پڑے رہنا اور بےصبری کرنا ان کیلئے یکساں ہے ۔ نہ ان کی عذر معذرت مقبول نہ ان کے گناہ معاف ۔ یہ دنیا کی طرف اگر لوٹنا چاہیں تو وہ راہ بھی بند جیسے اور جگہ ہے جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم پر ہماری بد بختی چھا گئی ۔ یقینا ہم بےراہ تھے ۔ اے اللہ اب تو یہاں سے نجات دے ۔ اگر ایسا کریں تو پھر ہمیں ہمارے ظلم کی سزا دینا ۔ لیکن جناب باری کی طرف سے جواب آئے گا کہ اب یہ منصوبے بےسود ہیں ۔ دھتکارے ہوئے یہیں پڑے رہو خبردار جو مجھ سے بات کی ۔