Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَقَيَّضۡنَا لَهُمۡ قُرَنَآءَ فَزَيَّنُوۡا لَهُمۡ مَّا بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَمَا خَلۡفَهُمۡ وَحَقَّ عَلَيۡهِمُ الۡقَوۡلُ فِىۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَالۡاِنۡسِ‌ۚ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا خٰسِرِيۡنَ‏ ﴿25﴾
اور ہم نے ان کے کچھ ہم نشین مقرر کر رکھے تھے جنہوں نے ان کے اگلے پچھلے اعمال ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا رکھے تھے اور ان کے حق میں بھی اللہ کا قول ان امتوں کے ساتھ پورا ہوا جو ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کی گزر چکی ہیں ۔ یقیناًوہ زیاں کار ثابت ہوئے ۔
و قيضنا لهم قرناء فزينوا لهم ما بين ايديهم و ما خلفهم و حق عليهم القول في امم قد خلت من قبلهم من الجن و الانس انهم كانوا خسرين
And We appointed for them companions who made attractive to them what was before them and what was behind them [of sin], and the word has come into effect upon them among nations which had passed on before them of jinn and men. Indeed, they [all] were losers.
Aur hum ney inn kay kuch hum nashee muqarrar ker rakhay rhay jinhon ney unn kay aglay pichlay aemaal unn ki nighaon mein khoobsurat bana rakhay thay aur inn kay haq mein bhi Allah ka qol unn ummaton kay sath poora hua jo inn say pehlay jinno aur insano ki guzar chuki hain. Yaqeenan woh ziyan kaar sabir huyey.
اور ہم نے ( دنیا میں ) ان پر کچھ ساتھی مسلط کردئیے تھے جنہوں نے ان کے آگے پیچھے کے سارے کاموں کو خوشنما بنا دیا تھا ( 12 ) چنانچہ جو دوسرے جنات اور انسان ان سے پہلے گذر چکے ہیں ان کے ساتھ مل کر عذاب کی بات ان پر بھی سچی ہوئی ۔ یقینا وہ سب خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہیں
اور ہم نے ان پر کچھ ساتھی تعینات کیے ( ف۵٦ ) انہوں نے انہیں بھلا کردیا جو ان کے آگے ہے ( ف۵۷ ) اور جو ان کے پیچھے ( ف۵۸ ) اور ان پر بات پوری ہوئی ( ف۵۹ ) ان گروہوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گزر چکے جن اور آدمیوں کے ، بیشک وہ زیاں کار تھے ،
ہم نے ان پر ایسے ساتھی مسلط کر دیے تھے جو انہیں آگے اور پیچھے ہر چیز خوشنما بنا کر دکھاتے تھے 29 ، آخرکار ان پر بھی وہی فیصلہ عذاب چسپاں ہو کر رہا جو ان سے پہلے گزرے ہوئے جنوں اور انسانوں کے گروہوں پر چسپاں ہو چکا تھا ، یقینا وہ خسارے میں رہ جانے والے تھے ۔ ع
اور ہم نے اُن کے لئے ساتھ رہنے والے ( شیاطین ) مقرر کر دیئے ، سو انہوں نے اُن کے لئے وہ ( تمام برے اعمال ) خوش نما کر دکھائے جو اُن کے آگے تھے اور اُن کے پیچھے تھے اور اُن پر ( وہی ) فرمانِ عذاب ثابت ہوگیا جو اُن امتوں کے بارے میں صادر ہوچکا تھا جو جنّات اور انسانوں میں سے اُن سے پہلے گزر چکی تھیں ۔ بے شک وہ نقصان اٹھانے والے تھے
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :29 یہ اللہ تعالیٰ کی مستقل اور دائمی سنت ہے کہ وہ بری نیت اور بری خواہشات رکھنے والے انسانوں کو کبھی اچھے ساتھی نہیں دلواتا ، بلکہ انہیں ان کے اپنے رجحانات کے مطابق برے ساتھی ہی دلواتا ہے ۔ پھر جتنے جتنے وہ بدی کی پستیوں میں گہرے اترتے جاتے ہیں اتنے ہی بدتر سے بدتر آدمی اور شیاطین ان کے ہم نشین اور مشیر اور رفیق کار بنتے چلے جاتے ہیں ۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ فلاں صاحب بذات خود تو بہت اچھے ہیں ، مگر انہیں ساتھی برے مل گئے ہیں ، حقیقت کے بالکل خلاف ہے ۔ قانون فطرت یہ ہے کہ ہر شخص کو ویسے ہی دوست ملتے ہیں جیسا وہ خود ہوتا ہے ۔ ایک نیک آدمی کے ساتھ اگر برے لوگ لگ بھی جائیں تو وہ اس کے ساتھ زیادہ دیر تک لگے نہیں رہ سکتے ۔ اور اسی طرح ایک بد نیت اور بد کردار آدمی کے ساتھ نیک اور شریف انسانوں کی رفاقت اتفاقاً واقع ہو بھی جائے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں نبھ سکتی ۔ بد آدمی فطرۃً بدو ہی کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور بد ہی اس کی طرف کھنچتے ہیں ، جس طرح غلاظت مکھیوں کو کھینچتی ہے اور مکھیاں غلاظت کی طرف کھنچتی ہیں ۔ اور یہ جو ارشاد فرمایا کہ وہ آگے اور پیچھے ہر چیز ان کو خوشنما بنا کر دکھاتے تھے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کو یقین دلاتے تھے کہ آپ کا ماضی بھی بڑا شاندار تھا اور مستقبل بھی نہایت درخشاں ہے وہ ایسی عینک ان کی آنکھوں پر چڑھاتے تھے کہ ہر طرف ان کو ہرا ہی ہرا نظر آتا تھا ۔ وہ ان سے کہتے تھے کہ آپ پر تنقید کرنے والے احمق ہیں ، آپ کوئی نرالا کام تھوڑی کر رہے ہیں ، دنیا میں ترقی کرنے والے وہی کچھ کرتے رہے ہیں جو آپ کر رہے ہیں اور آگے اول تو کوئی آخرت ہے ہی نہیں جس میں آپ کو اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی پڑے ، لیکن اگر وہ پیش آ ہی گئی ، جیسا کہ چند نادان دعویٰ کرتے ہیں ، تو جو خدا آپ کو یہاں نعمتوں سے نواز رہا ہے وہ وہاں بھی آپ پر انعام و اکرام کی بارش کرے گا ، دوزخ آپ کے لیے نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے بنی ہے جنہیں یہاں خدا نے اپنی نعمتوں سے محروم کر رکھا ہے ۔
آداب قرآن حکیم ۔ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ مشرکین کو اس نے گمراہ کر دیا ہے اور یہ اس کی مشیت اور قدرت سے ہے ۔ وہ اپنے تمام افعال میں حکمت والا ہے ۔ اس نے کچھ جن و انس ایسے ان کے ساتھ کر دیئے تھے ۔ جنہوں نے ان کے بداعمال انہیں اچھی صورت میں دکھائے ۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ دور ماضی کے لحاظ سے اور آئندہ آنے والے زمانے کے لحاظ سے بھی ان کے اعمال اچھے ہی ہیں ۔ جیسے اور آیتیں ہے ( وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَيِّضْ لَهٗ شَيْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِيْنٌ 36؀ ) 43- الزخرف:36 ) ، ان پر کلمہ عذاب صادق آ گیا ۔ جیسے ان لوگوں پر جو ان سے پہلے جیسے تھے ۔ نقصان اور گھاٹے میں یہ اور وہ یکساں ہوگئے ، کفار نے آپس میں مشورہ کرکے اس پر اتفاق کر لیا ہے کہ وہ کلام اللہ کو نہیں مانیں گے نہ ہی اس کے احکام کی پیروی کریں گے ۔ بلکہ ایک دوسرے سے کہہ رکھا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو شور و غل کرو اور اسے نہ سنو ۔ تالیاں بجاؤ سیٹیاں بجاؤ آوازیں نکالو ۔ چنانچہ قریشی یہی کرتے تھے ۔ عیب جوئی کرتے تھے انکار کرتے تھے ۔ دشمنی کرتے تھے اور اسے اپنے غلبہ کا باعث جانتے تھے ۔ یہی حال ہر جاہل کافر کا ہے کہ اسے قرآن کا سننا اچھا نہیں لگتا ۔ اسی لئے اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم فرمایا کہ ( وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ٢٠٤؁ ) 7- الاعراف:204 ) جب قرآن پڑھا جائے تو تم سنو اور چب رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ، ان کافروں کو دھمکایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم سے مخالفت کرنے کی بناء پر انہیں سخت سزا دی جائے گی ۔ اور ان کی بدعملی کا مزہ انہیں ضرور چکھایا جائے گا ، ان اللہ کے دشمنوں کا بدلہ دوزخ کی آگ ہے ۔ جس میں ان کیلئے ہمیشہ کا گھر ہے ۔ یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے ، اس کے بعد آیت کا مطلب حضرت علی سے مروی ہے کہ جن سے مراد ابلیس اور انس سے مراد حضرت آدم کا وہ لڑکا ہے جس نے اپنے بھائی کو مار ڈالا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ ابلیس تو ہر مشرک کو پکارے گا ۔ اور حضرت آدم کا یہ لڑکا ہر کبیرہ گناہ کرنے والے کو پکارے گا ۔ پس ابلیس شرک کی طرف اور تمام گناہوں کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والا ہے اور اول رسول حضرت آدم کا یہ لڑکا جو اپنے بھائی کا قاتل ہے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے روئے زمین پر جو قتل ناحق ہوتا ہے اس کا گناہ حضرت آدم کے اس پہلے فرزند پر بھی ہوتا ہے کیونکہ قتل بےجا کا شروع کرنے والا یہ ہے ۔ پس کفار قیامت کے دن جن و انس جو انہیں گمراہ کرنے والے تھے انہیں نیچے کے طبقے میں داخل کرانا چاہیں گے تاکہ انہیں سخت عذاب ہوں ۔ وہ درک اسفل میں چلے جائیں اور ان سے زیادہ سزا بھگتیں ۔ سورہ اعراف میں بھی یہ بیان گزر چکا ہے کہ یہ ماننے والے جن کی مانتے تھے ان کیلئے قیامت کے دن دوہرے عذاب کی درخواست کریں گے جس پر کہا جائے گا کہ ہر ایک دوگنے عذاب میں ہی ہے ۔ لیکن تم بےشعور ہو ۔ یعنی ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق سزا ہو رہی ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ Ǻ۝ ) 47-محمد:1 ) ۔ یعنی جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا انہیں ہم ان کے فساد کی وجہ سے عذاب پر عذاب دیں گے ۔